حیدرآباد (دکن فائلز) نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کی ایک ٹیم پر کرناٹک کے بنگلور میں واقع ایک دینی مدرسہ کے معائنہ کے نام پر غیرانسانی و توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ مدرسہ کی مسلم طالبات نے ٹیم کے ارکان پر ان سے انتہائی بے ہودہ و توہین آمیز سوالات کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔ دراصل مدرسہ کے معائنہ کے نام پر یہ ٹیم این سی پی سی آر کے چیئرپرسن پریانک کنونگو کی سربراہی میں بنگلور کے ایک مدرسہ پہنچی تھی۔
Chairperson @KanoongoPriyank with his team visits Madarasa in Bengaluru, and asks inappropriate questions to the students studying there. The minor girl in the video alleges that the team asked her if she would be married and sent off to Dubai/Kuwait. She alleges that the @NCPCR_… pic.twitter.com/1kjZG4q1Hw
— Mohammed Zubair (@zoo_bear) March 16, 2024
مدرسہ کی لڑکیوں نے الزام لگایا کہ ٹیم کے ارکان نے ان سے سوال کیا کہ کیا شادی کر کے وہ کویت یا دبئی جائیں گی؟ ایک لڑکی نے الزام عائد کیا کہ ’ٹیم کے ارکان نے میرا نام اور عمر پوچھی اور بعد میں نامناسب سوالات کرنے لگے جس کا میں نے جواب نہیں دیا تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے تھپڑ ماردیا‘۔
आज कर्नाटक के बंगलुरु में एक अवैध यतीमख़ाने का निरीक्षण करने के दौरान चौकाने वाली जानकारी सामने आयी है।
– यहाँ 20 लड़कियाँ थीं जिनमें से अनाथ बच्चियाँ भी हैं।
– बच्चियों को स्कूल नहीं भेजा जाता है,पूरे बाल गृह में भी खिड़की या रोशनदान नहीं है,लड़कियों को एकदम क़ैद कर के रखा गया… pic.twitter.com/fPKLhW4W57— प्रियंक कानूनगो Priyank Kanoongo (मोदी का परिवार) (@KanoongoPriyank) March 15, 2024
اس معاملہ میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں مدرسہ کی ذمہ دار ایک خاتون نے بتایا کہ این سی پی سی آر کی ٹیم نے طالبات سے گندے سوالات پوچھے اور طالبات سے پوچھا گیا کہ دینی تعلیم کیوں حاصل کررہی ہیں، کیوں مدرسہ میں پڑھ رہی ہیں، انہیں اس کے بجائے ایم بی بی ایس اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے‘۔