ہاتھرس عصمت دری معاملہ میں مسعود احمد ساڑھے تین سال جیل میں رہنے کے بعد بالآخر رہا ہوگئے

(ایجنسیز) ہاتھرس میں اکتوبر2020 میں مسعود احمد کو یو اے پی ای اور ای ڈی کیس میں صحافی صدیق کپن اور دیگر کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ مسعود کو ساڑھے تین سال متھرا جیل میں سنگین الزامات کا سامنا کرنے کے بعد بالآخْر رہا کیا گیا۔

واضح رہے کہ کئی بار ضمانت کی عرضی مسترد کئے جانے کے بعد الہٰ آباد ہائی کورٹ نے مئی 2023 میں ای ڈی کیس میں مسعود کو ضمانت دی تھی، بعد میں 12 مارچ 2024 کو انہیں یو اے پی اے کیس میں بھی ضمانت مل گئی لیکن اہل خانہ کے مطابق ان کی رہائی کے عمل میں تقریباً 2 ماہ لگ گئے۔

یاد رہے کہ مسعود احمد کے علاوہ ایک اور اسٹوڈنٹ لیڈر رؤف شریف، صحافی صدیق کپن، اسٹوڈنٹ لیڈر عتیق الرحمٰن اور محمد عالم جو اس کیس میں ملزم تھے، بھی اس سے قبل یو اے پی اے اور ای ڈی کیس میں ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔

مسعود احمد کو 5 اکتوبر2020 کو متھرا میں اس دلت خاتون کی رہائش گاہ پر جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا جسے اتر پردیش کے ہاتھرس میں اونچی ذات کے افراد نے مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کرنے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ مسعود، عتیق کے ساتھ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے ایک وفد کی قیادت کر رہے تھے، جو پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا طلبہ ونگ ہے۔

کیمپس فرنٹ کے سابق قومی سیکر یٹری رؤف شریف کو بھی اسی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا حالانکہ وہ وفد کا حصہ نہیں تھے۔ رؤف کو محض 5 ہزار روپے اپنے دوست اور ساتھی پارٹی ممبر عتیق کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے پر 33 ماہ جیل میں گزارنے کے بعد رہا کیا گیا۔ مسعود اور دیگر کی گرفتاری کے ایک دن بعد ان پر غداری اور یو اے پی اے کے الزامات لگائے گئے، بعد ازاں یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا کہ وہ ریاست میں بڑے پیمانے پر تشدد بھڑکانے کیلئے ان کی حکومت کے خلاف ’سازش‘ کر رہے تھے۔

بالآخر ان کے خلاف ایک کے بعد ایک الزامات کے انبار لگ گئے۔ مسعود کے وکیل کے بیان کے مطابق قید کے ابتدائی دنوں میں انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ واضح رہے کہ 30 سالہ مسعود احمد نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا ہے۔ (بشکریہ انقلاب)

اپنا تبصرہ بھیجیں