ہلدوانی تشدد: خواتین سمیت 107 مسلم نوجوانوں کے خلاف سخت قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ! سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ

حیدرآباد (دکن فائلز) اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں 8 فروری 2024 کو پیش آئے پرتشدد واقعات کے معاملہ میں پولیس نے سات خواتین سمیت تمام 107 ملزمان کے خلاف غیرقانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ یو اے پی اے کی سخت دفعات کو بھی شامل کیا ہے۔

ہلدوانی فسادات میں سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس فائرنگ میں درجنوں لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔ تشدد کے واقعات کے بعد مقامی مسلمانوں کے خلاف پولیس نے سخت کاروائی کی اور بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں کی۔ حیرت انگیز طور پر پولیس نے مسلمانوں کے خلاف ہی کارروائی کرکے 107 گرفتار مسلمانوں پر یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے دفعات کو بھی مقدمہ مںی شامل کردیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی ایکتا منچ کی فیکٹ فائڈنگ رپورٹ میں تشدد معاملہ کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہلدوانی تشدد مقدمہ کے سبھی ملزمین کو ابھی تک جیل میں رکھا گیا ہے۔ پولیس نے گذشتہ 26 فروری کو صرف 36 ملزمین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کاروائی کی تھی تاہم اب تمام 107 ملزمین جن میں مسلم خواتین بھی شامل ہیں پر یو اے پی اے جیسے سخت دفعات کو شامل کیا گیا۔

قومی ایکتا منچ کے کنوینر رجنی جوشی نے بن پھول پورہ واقعہ کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پرتشدد واقعہ انتظامیہ کی مکمل ناکامی اور ریاستی حکومت کے فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی رویہ کا نتیجہ ہے۔ رپورٹ میں سیاسی قیادت کے دوہرے معیار کو بھی اجاگر کیا گیا کہ اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی اور مقامی ایم پی نے زخمی پولیس اہلکاروں سے ملاقات کی لیکن پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو نظر انداز کیا۔

اسی طرح خواتین پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے پر بھی روشنی ڈالی گئی لیکن کرفیو کے دوران غریب لوگوں پر پولیس کے مبینہ جبر کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ منچ کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بی جے پی کی ریاستی حکومت اور پولیس انتظامیہ پر بن پھول پورہ تشدد سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں مبینہ طور پر متعصبانہ فرقہ وارانہ رویہ کا الزام لگایا گیا ہے، جو پہلے بھی لگائے گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں