نئی دہلی : بلڈوزر کارروائی معاملہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے پیش نظرجمعیۃعلماء ہند جلد ہی اپنے مشوروں کا مسودہ عدالت میں پیش کردے گی۔دکلاء کی ٹیم نے معاملہ کے مختلف پہلووں کاگہرائی سے جائزہ لیکر ملک گیر سطح پر اس سلسلہ میں عدالت کے ذریعہ اصول وضوابط طے کرنے کے تناظرمیں اپنے مشاورتی مسودہ میں کئی اہم مشورے دیئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہسال 2022 کے وسط میں دہلی کے جہانگیر پوری کی مسلم بستی پر غیر قانونی بلڈوزر کارروائی کی گئی تھی، بلڈوزر کی یہ کارروائی دیکھتے دیکھتے دوسری ریاستوں تک پہنچ گئی جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں ہیں۔
بلڈوزر کی اس کارروائی کو میڈیا کے ایک متعصب طبقہ نے ”بلڈوزر جسٹس“ کا نام دیا جبکہ اس بلڈوزر انجسٹس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھااور عدالت سے فوری مداخلت کی گذارش کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند 26/ اپریل 2022 کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں مولانا ارشدمدنی صدرجمعیۃعلماء ہند کی ہدایت پر پٹیشن داخل کی تھی جس پر ابتک 19/ سماعتیں ہوچکی ہیں۔جمعیۃ علماء ہندکی پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے20/ اپریل 2022کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے بلڈوزر کارروائی پر روک لگانے کا حکم جاری کیا تھا اور ”اسٹیٹس کو“ کا حکم دیا تھا جس ابتک جاری ہے۔
مختلف سماعتوں پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء کپل سبل، سی یو سنگھ، نتیار اما کرشنن پیش ہوئے جبکہ ان کی معاونت ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کبیر دکشت، ایڈوکیٹ نظام الدین پاشا،ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر نے کی۔جمعیۃ علماء ہند نے اپنی پٹیشن یونین آف انڈیا، منسٹری آف لاء اینڈ جسٹس، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، نارتھ دہلی میونسپل کارپوریشن اور دہلی پولس کو فریق بنایا تھا جنہیں سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کیا تھا۔
جمعیۃ علماء کی پٹیشن کے ہمراہ دیگر فریق نے بھی بلڈوزر کارروائی کے خلاف پٹیشن داخل کی تھی لیکن اس میں انہوں نے بلڈوزر کارروائی انجام دینے والی تمام ریاستوں کو فریق بنانے کے بجائے مخصوص اتھاریٹی کو فریق بنایا تھا۔23/ ستمبر 2022 کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے زبانی طور پر جمعیۃعلماء ہند سمیت تمام پٹیشن کو ختم کرنے کا یہ کہتے ہوئے اشارہ دیا تھاکہ اب جبکہ بلڈوزر کارروائی پر قدغن لگ چکا ہے اس معاملے کو ختم کردینا چاہئے جس پر جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے عدالت سے گذارش کی کہ مستقبل میں پھر کسی غریب کا گھر بلڈوزر کا شکار نہ ہوئے عدالت کو پورے ملک کے لئے گائیڈلائنس مرتب کرنا چاہئے۔ جمعیۃ علماء کے وکلاء کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے عدالت نے اس مقدمہ کی سماعت ملتوی کردی تھی۔تقریباً دیڑھ سال تک مقدمہ کی سماعت التواء کا شکار رہی پھر جیسے ہی مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بلڈوزر کارروائی انجام دی گئی جمعیۃ کے وکلاء نے عدالت سے فوری مداخلت کرنے کی گذارش کی۔ جمعیۃ ہند کی گذار ش پر 2/ ستمبر کو مقدمہ کی سماعت ہوئی جس کے دوران سپریم کورٹ آف انڈیا کی دورکنی بینچ کے جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن نے بلڈوزر کارروائی پر روک لگانے کے لیئے رہنمایانہ اصول یعنی کے گائیڈلائنس مرتب کیئے جانے کا حکم جاری کیا، اس ضمن میں عدالت نے جمعیۃ علماء ہند سمیت دیگر فریق سے مشور ے طلب کئے۔
دوران سماعت مرکزی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے متعدد مرتبہ جمعیۃ علماء ہند کو نشانہ بنایا اور کہاکہ جمعیۃ علماء اس معاملے کو پیچیدہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس کا سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔جمعیۃ علماء ہند نے اول دن سے یہ موقف اختیار کیا ہوا کہ ملک کے کسی بھی صوبے میں کسی بھی شخص کی املاک پر بلڈوزر کارروائی انجام نہیں دینا چاہتے، میونسل قانون کے مطابق انہدامی کارروائی انجام دینے کا قانون پہلے سے موجود ہے لیکن حکام ان قوانین کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی دباؤ میں ایک مخصوص فرقے کے افراد کی املاک پر بلڈوزر چلاتے ہیں، یہ بلڈوزر کارروائی بلڈوزر انصاف نہیں بلکہ بلڈوزر زیادتی ہے جس پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیا ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق جمعیۃعلماء کے وکلاء جمعیۃعلماء کی جانب سے عدالت میں اپنا مشورے کامسودہ جلدہی پیش کردیں گے۔بروقت جمعیۃعلماء ہند کیجانب سے ایک سے زائدریاستوں کو فریق بنانے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے آل انڈیا لیول پرگائیڈلائنس مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔