حیدرآباد (دکن فائلز) سپریم کورٹ نے آج 2004 کے اتر پردیش مدرسہ بورڈ ایجوکیشن قانون کے آئینی جواز کو برقرار رکھا اور الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے کہا کہ ’ہائی کورٹ نے قانون کو سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف قرار دیکر غلطی کی ہے‘۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ ’ہم نے اترپردیش مدرسہ قانون کی درستگی کو برقرار رکھا ہے‘۔
واضح رہے کہ قبل ازیں الہ آباد ہائیکورٹ نے مدارس کو بند کرنے اور طلباء کو اسکولوں میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ 22 مارچ کو، الہ آباد ہائیکورٹ نے مدرسہ ایکٹ کو “غیر آئینی” اور سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا تھا اور ریاستی حکومت سے کہا کہ مدرسے کے طلباء کو باقاعدہ اسکولنگ سسٹم میں شامل کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے 22 اکتوبر کو الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بنچ نے فیصلہ محفوظ کرنے سے پہلے تقریباً دو دن تک اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج کے علاوہ انجم قادری سمیت آٹھ درخواست گزاروں کی طرف سے حاضر وکلاء کی بحث کو سماعت کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اترپردیش میں دینی مدارس کام کرسکتے ہیں اور انہیں بند نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے بعد ریاست کے تقریباً 16 ہزار مدارس کے طلبا و ذمہ داروں نے راحت کی سانس لی۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کا مسلم علمائے کرام نے خیرمقدم کیا اور فیصلہ کے بعد لاکھوں طلبا نے خوشی کا اظہار کیا۔