حیدرآباد (دکن فائلز) کیا قانون کی حکمرانی صرف کاغذوں تک محدود ہے؟ بریلی میں ہونے والے واقعات نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کی گونج اب ملک بھر میں سنائی دے رہی ہے۔
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے بریلی کا دورہ کیا۔ اس وفد میں سینئر وکلاء، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن شامل تھے۔ ان کا مقصد ‘آئی لو محمد’ احتجاج کے بعد پولیس کارروائیوں سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینا تھا۔
بریلی میں بے گناہ شہریوں پر کیا گزر رہی ہے، اس کا جائزہ لینے کےلئے انسانی حقوق کے وفد نے علاقہ کا دورہ کرکے وہاں کے حالات کا جائزہ لیا ہے اور ان کی رپورٹ آپ کو چونکا دے گی۔ وفد نے متاثرین، مقامی وکلاء اور عینی شاہدین سے ملاقات کی۔ پولیس کے ظالمانہ طرز عمل اور غیر قانونی گرفتاریوں کی تفصیلات جمع کیں۔ پرامن احتجاج کے بعد گھروں میں گھس کر مار پیٹ اور گرفتاریاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
APCR کے نمائندوں نے متاثرین کو مکمل قانونی مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا ہے۔ وہ اس واقعہ کی غیرجانبدارانہ تفتیش کے لیے حکام سے مطالبہ کریں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو یہ کیس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی لے جایا جائے گا۔ وفد نے واضح کیا کہ مذہبی جذبات کے اظہار کو جرم بنانا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ ریاست کو شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
26 ستمبر کو ‘آئی لو محمد’ کے پوسٹرز کی نمائش کے بعد احتجاج شروع ہوئے۔ ان مظاہروں کے بعد پولیس نے سخت کارروائی کی۔ بریلی انتظامیہ نے گرفتاریاں کیں، موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل کیں اور املاک کو مسمار کیا۔ بلڈوزر کارروائیوں سے متاثرہ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا گیا۔ یہ عمل قانونی طریقہ کار اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
APCR کا دورہ انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ ایک بینکوئٹ ہال اور ای-رکشہ اسٹیشن سمیت کئی املاک مسمار کی گئیں۔ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ انہیں مسماری کا کوئی نوٹس نہیں ملا۔ یہ صورتحال شہریوں کے بنیادی حقوق پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔
26 ستمبر کو ‘آئی لو محمد’ پوسٹرز پر احتجاج کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔ 2 سے 4 اکتوبر تک بریلی میں موبائل انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ سروسز معطل رہیں۔ 4 اکتوبر کو APCR وفد نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، اسی دن پولیس نے ایک ملزم کے بینکوئٹ ہال کو مسمار کیا۔ 6 اکتوبر کو متاثرہ خاندانوں نے انسانی حقوق کی تنظیم سے رجوع کیا۔