حیدرآباد (دکن فائلز) ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہزاروں مسلمانوں پر صرف اس لئے مقدمہ درج کیا گیا کیونکہ انہوں نے ’آئی او محمد‘ مہم میں حصہ لیا۔ اس سلسلہ میں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی ایک تازہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات منظر عام پر آئے ہیں۔ رپورٹ نے بریلی میں ہونے والے مظالم کی دل دہلا دینے والی تفصیلات بھی سامنے لائی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کی رپورٹ کے مطابق، آئی لو محمد مہم کے بعد پورے ہندوستان میں 4,505 مسلمانوں پر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ 7 اکتوبر تک 265 مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 89 بریلی سے ہیں۔ یہ اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔
رپورٹ میں بریلی میں مسلمانوں کے خلاف پولیس کی غیر متناسب کارروائیوں کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ کارروائیاں مولانا توقیر رضا خان کی قیادت میں ہونے والے “آئی لو محمد” مظاہرے کے بعد کی گئیں۔ “آئی لو محمد” مظاہرہ مقامی حکام کو ایک یادداشت پیش کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، یہ احتجاج مکمل طور پر پرامن تھا، جس میں کوئی نعرے بازی، توڑ پھوڑ یا تشدد نہیں ہوا۔
تاہم، پولیس نے بغیر کسی وارننگ کے لاٹھی چارج کیا اور مظاہرین کو منتشر کر دیا۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جس نے صورتحال کو مزید کشیدہ کر دیا۔ کریک ڈاؤن کے بعد، مسلم اکثریتی علاقوں میں نیم فوجی دستے تعینات کیے گئے۔ انٹرنیٹ سروسز 48 گھنٹوں کے لیے معطل کر دی گئیں، جس سے معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔
احتجاج کے دو دن بعد، مزار پہلوان مارکیٹ کی 32 دکانیں سیل کر دی گئیں۔ یہ وقف پراپرٹی تھی اور اس پر پہلے سے ہی اسٹے آرڈر موجود تھا۔ دکانداروں نے اسے احتجاج کے ردعمل میں ایک انتقامی کارروائی قرار دیا۔ رپورٹ کے مطابق، گرفتار کیے گئے افراد کو گرفتاری میمو نہیں دیے گئے۔ ایف آئی آر کی کاپیاں بھی فراہم نہیں کی گئیں اور اہل خانہ کو ان کے پیاروں کے ٹھکانے کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ نابالغوں کو بھی حراست میں لیا گیا، جن کی قانونی امداد تک رسائی غیر واضح ہے۔
رپورٹ میں مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی املاک کو نشانہ بنانے کا بھی ذکر ہے۔ یہ کارروائیاں انٹرنیٹ کی بندش کے دوران کی گئیں، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ APCR کی رپورٹ نے حکام سے مکالمے، پولیس کارروائی کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (NHRC) سے بھی مداخلت کی اپیل کی ہے۔
رپورٹ میں ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرنے والے افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تمام غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔