جمعیت علماء عہدے داروں کی نہیں خادمین ملک و ملت کی جماعت، انسانیت کی خدمت اہم: کاماریڈی میں تربیتی اجلاس سے مولانا سید اسجد مدنی کا خطاب

حیدرآباد (پریس نوٹ) نائب صدر جمعیۃ علماء ہند جگر گوشہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسجد مدنی صاحب دامت برکاتہم نے ارکین و ذمہ داران جمعیۃ علماء حفاظ و خدام دین کے اجلاس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے اکابر علماء ہند کی قربانیوں پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے دستور میں ایسے تربیتی پروگراموں کو بڑی اہمیت حاصل ہے جن میں کارکنان اور ذمہ داران کو بتایا جاتا ہے کہ ہمیں کس طرح اور کس منہج پر کام کرنا ہے۔

آج کا یہ تربیتی اجتماع اسی مقصد کے تحت منعقد کیا گیا خطاب کے دوران مولانا نے شرکاء کو یاد دلایا کہ سب سے پہلے ہمارے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ جمعیۃ علماء ہند کے بانیان و مؤسسین کون تھے یہ وہ عظیم علماء تھے جو اپنے وقت کے بڑے محدثین رہنما اور مصنفین تھے طریقت و شریعت کے ماہر درس و تدریس کے مسند نشین اور امت کی رہنمائی کرنے والے تھے انہی اکابر کے فیضان سے یہ جماعت وجود میں آئی مولانا مدنی نے کہا کہ 1947 کے بعد اس جماعت نے مسلمانوں کے دینی تشخص تعلیمی بہتری اور سماجی بقا کے لیے اہم خدمات انجام دیں تاکہ مسلمان اس ملک میں مذہبی شناخت کے ساتھ باوقار زندگی گزار سکیں۔

خطاب کے دوران مولانا نے تاریخی تناظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کے تمام بڑے مدارس تباہ کر دیے تھے اس وقت عیسائی مشنریوں نے یہ نعرہ لگایا کہ اب مسلمانوں کے پاس اپنے علماء نہیں رہے لہٰذا وہ اپنے بچوں کو ہمارے پاس پڑھائیں ہم مفت تعلیم اور رہائش دیں گے مولانا صاحب نے وضاحت کی کہ ایسے نازک وقت میں ہمارے اکابر آگے بڑھے اور دارالعلوم دیوبند جیسا عظیم ادارہ قائم کیا حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپیل کی کہ مسلمان اپنے بچوں کو خود پڑھائیں انہیں تعلیم دیں کتابیں دیں اور کھانا بھی فراہم کریں تاکہ مسلمانوں کی نئی نسل دین و ایمان کے ساتھ ملک میں محفوظ رہ سکے۔

خطاب کے دوران مولانا نے مزید بتایا کہ آج ملک اور دنیا بھر میں چلنے والے مدارس انہی اکابر کی قربانیوں اور اخلاص کا نتیجہ ہیں ان مدارس میں دین کی وہی روشنی موجود ہے جسے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال قربان کر کے محفوظ رکھا نائب صدر نے یہ بھی واضح کیا کہ اسی طرح جب 1947 میں ملک آزاد ہوا تو جمعیۃ علماء ہند نے ملک و ملت کی تعمیر میں بھرپور کردار ادا کیا اور مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی اصلاح پر خصوصی توجہ دی

مولانا مدنی دامت برکاتہم نے سلسلۂ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خدمتِ خلق کی دین میں بڑی اہمیت حاصل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ انسانیت کی خدمت اور محتاجوں کی خبرگیری سے بھری ہوئی ہے چناچہ غارِ حرا میں جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اقْرَأْ کا حکم سنایا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے اور فرمایا زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي (مجھے اوڑھا دو مجھے اوڑھا دو)ایسے وقت میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نہایت حوصلہ افزا اور پُراعتماد الفاظ میں فرمایا اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں کمزوروں کا سہارا بنتے ہیں ناداروں کی مدد کرتے ہیں مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اور حق کے کاموں میں لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ دراصل اس بات کی گواہی ہیں کہ کے اعلان نبوت سے قبل بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی صداقت امانت خدمتِ خلق اور اعلیٰ اخلاق کا پیکر تھی آپؐ کی تربیت نے ایسے عظیم المرتبت صحابہ کرام پیدا کیے جنہوں نے اپنی زندگی کو خدمتِ دین اور خدمتِ انسانیت کے لیے وقف کر دیا امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خود راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں گشت فرمایا کرتے تاکہ عوام کے حالات براہِ راست دیکھ سکیں ایک رات کا واقعہ پیش آیا کہ حضرت عمرؓ اپنے خادم کے ہمراہ گشت کر رہے تھے اچانک بچوں کے رونے کی آواز آئی قریب جا کر دیکھا تو ایک عورت چولہے پر ہانڈی چڑھائے بیٹھی تھی اور بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔

حضرت عمرؓ نے دریافت کیا یہ بچے کیوں رو رہے ہیں خاتون نے جواب دیا انہیں بھوک لگی ہے مگر کھانے کو کچھ نہیں میں نے ہانڈی میں پانی اور پتھر ڈال دیے ہیں تاکہ بچے سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے اور شاید سو جائیں یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے آپؓ نے پوچھا کیا تم نے امیرالمؤمنین کو اپنی حالت سے آگاہ نہیں کیا عورت نے جواب دیا عمر ہمارا حال نہیں جانتے اللہ اس سے پوچھے گا یہ الفاظ سن کر حضرت عمرؓ فوراً بیت المال پہنچے وہاں سے آٹا گھی اور کھجوریں نکالیں اور خود اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے خادم نے عرض کیا کہ یہ بوجھ میں اٹھا لوں گا لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا کیا قیامت کے دن میرا بوجھ بھی تم اٹھاؤ گے نہیں میں خود اٹھاؤں گا آگ جلانے کے وقت خادم نے پھر عرض کیا کہ میں آگ جلا لیتا ہوں آپؓ نے فرمایا نہیں میں ہی جلاؤں گا جب آپ آگ کو پھونک مارتے تو دھواں پلٹ کر آپؓ کی داڑھی مبارک میں بھر جاتا مگر آپؓ فرمایا کرتے کہ قیامت کے دن یہی دھواں میری کامیابی کا ذریعہ بنے گایہ سوچنے کی بات ہے کہ یہ عاجزی یہ ایثار اور خدمتِ خلق کا جذبہ کہاں سے آیا یہ سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کو قریب سے دیکھنے اور آپؐ کے عمل کی پیروی کرنے سے آیا خدمتِ خلق صرف ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ یہ دین کا تقاضا ہے۔

اسی لیے ہمارے اکابر نے خدمت کو ہمیشہ اصل سمجھا عہدوں کو نہی حضرت شیخ الہندؒ حضرت مفتی کفایت اللہؒ حضرت حسین احمد مدنیؒ اور دیگر اکابر نے جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد رکھی اور اپنی آخری سانس تک خدمت میں لگے رہے وہ نہ صدارت کے محتاج تھے اور نہ کسی عہدے کے ان کا مقصد صرف اللہ کی رضا اور دین کی سربلندی تھامثال کے طور پر، مفتی اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہؒ پہلے صدر تھے لیکن جب حضرت شیخ الہندؒ مالٹا سے واپس تشریف لائے تو فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ بعد میں حضرت شیخ الہندؒ کے وصال کے بعد وہ دوبارہ صدر بنے مگر 1940ء میں جب حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ کا نام آیا تو فوراً اپنا نام واپس لے لیا۔ پھر 1952ء تک آپ بقید حیات رہے لیکن جمعیۃ کے خادم اور فعال رکن کی حیثیت سے ہر خدمت میں آگے رہے یہ مثالیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ اصل چیز منصب یا عہدہ نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے خدمت ہے حضرت عمر فاروقؓ کے اس واقعے اور ہمارے اکابر کی عملی زندگی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو سامنے رکھنا چاہیے اکابر کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے اور خدمتِ دین و خدمتِ انسانیت کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہیےحضرت مدنیؒ نے حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجو شخص کسی انسان کی ایک بھی دنیاوی ضرورت یا حاجت کو پورا کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ساری پریشانیوں سے نجات دے گا

جمعیت علماء نے قومی یکجہتی بلالحاظ مذہبی وابستگی اور انسانیت کی بنیاد پر خدمت، دیگر مسلمانوں کی اصلاح اور تعلیمی جدوجہد کو اپنی اولین ترجیح بنایا ملک کی آزادی کے بعد جمعیت علماء ہند نے میدانِ عمل میں اپنی خدمات کو بنیادی طور پرمسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی اصلاح پر مرکوز کیاپنجاب کے سونی پت کے قریب کچھ علاقوں کی حالت یہ تھی کہ ایک ہی بچے کے دو نام رکھے جاتے تھے۔ مثلاً کسی بچے کا اسکول میں نام مہیش تھا لیکن گھر میں اسے احمد کہا جاتا تھا یا کسی بچے کا اسکول میں نام اکرم مہیندر تھا لیکن گھر میں اسے احمد کہا جاتا تھا ذمہ داران نے مختلف مساجد کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسکول کا نام الگ اور گھر کا نام الگ ہے

جمعیت علماء ہند نے گاؤں گاؤں جا کر مکاتب قائم کیے اور مسلمانوں کو ارتداد کے خطرے سے واپس لایا بہت سی مساجد جو لوگوں کے قبضے میں تھیں، انہیں جمعیت نے بازیاب کرایا آج بھی کچھ مساجد کو لوگ بیٹھک اور پنچایت کے لیے استعمال کر رہے ہیں جیسا کہ سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے پنجاب میں جمعیت علماء ہند نے ریلیف اور فلاحی کام بھی انجام دیے امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کی ہدایت پر لوگوں کی مدد کی گئی جس سے متاثر ہو کر سکھ بھائیوں نے ایک مسجد دوبارہ مسلمانوں کے حوالے کی۔ آج بھی جمعیت علماء ہند گاؤں گاؤں میں مکاتب چلا رہی ہے اور ان علاقوں کے مسلمانوں کو ارتداد کے خطرے سے واپس لانے کا کام جاری ہے اگر صرف تعلیم کے میدان میں جمعیت کے کردار کو دیکھا جائے تو یہ بے مثال ہے۔ تعلیم الاسلام جیسا رسالہ اور مولانا حفظ الرحمان سیوہاریؒ کی اسلامی کورس کی کتابیں جمعیت کے ترتیب شدہ نصاب کا حصہ ہیں جو آج سینکڑوں مدارس میں داخل نصاب ہیں بعد میں دینی تعلیمی ادارے کے قیام کے بعد مختلف کورسز بھی تیار کیے گئے۔

جمعیت نے ان کتابوں اور نصاب کو ملک بھر میں پھیلایا اور آج بھی یہ تعلیم مختلف مکاتب فکر میں جاری ہے یہ تمام خدمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جمعیت علماء ہند نے اپنے قیام کے آغاز سے ہی تعلیم تربیت اور معاشرتی اصلاح کو اپنا بنیادی مقصد بنایا، اور ان کا اثر آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے تربیتی اجلاس سے بحیثیت مہمان خصوصی حضرت مولانا مفتی شہاب الدین قاسمی صاحب، جنرل سکریٹری جمعیت علماء جھارکھنڈ نے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمعیت کے تمام کاموں کی بنیاد دین اخلاص اور استقامت پر قائم ہے جمعیت کی تحریکیں ہمیشہ دینی جذبے اور صبر و استقلال کے ساتھ آگے بڑھتی رہی ہیں جمعیت کے کام کرنے کی دو بنیادی بنیادیں ہیں پہلی بنیاد صبر و استقامت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ یعنی صبر کرو جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا دوسری بنیاد خلوصِ نیت ہے، کہ دنیاوی مفاد اور سیاسی فائدے سے دل کو پاک رکھ کر خدمت کی جائے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا :قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا یعنی میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں مانگتا حدیث شریف میں آیا ہے الخلق عیال اللہ یعنی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔

مفتی شہاب الدین قاسمی صاحب نے کہا کہ یہی دو اصول جمعیت کے ہر عمل کی روح ہیں اور انہی پر جمعیت کی فکری، دینی اور عملی جدوجہد قائم ہے انہوں نے مزید کہا کہ مقامی جمعیتوں کے چار میدانِ عمل ہیں پہلا دینی جدوجہد کا میدان ہے جس میں مساجد میں سیرت النبی ﷺ کانفرنسیں، دینی اجتماعات اور اصلاحی پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے دوسرا تعلیمی میدان ہے جس کے تحت مکاتب و مدارس کا قیام، بنیادی دینی تعلیم کی فراہمی، تصنیف و تالیف علمی مقالات اور دینی رہنمائی پر مبنی تحریروں کی اشاعت شامل ہے۔ تیسرا اقتصادی میدان ہے جس میں غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مالی امداد اور زکوٰۃ و عطیات کی منظم تقسیم کی جاتی ہے چوتھا سماجی خدمت کا میدان ہے جہاں قومی یکجہتی بھائی چارہ، بیواؤں اور ناداروں کی اعانت پر توجہ دی جاتی ہے

مفتی شہاب الدین قاسمی صاحب نے کہا کہ جمعیت علماء ہند کی یہی خدمات اس کے تشخص کی ضامن ہیں اور آج بھی جمعیت انہی اصولوں پر کاربند رہ کر خدمتِ دین اور خدمتِ انسانیت کا فریضہ انجام دے رہی ہے حضرت مفتی محمود زبیر قاسمی جنرل سیکرٹری جمعیت علماء تلنگانہ و آندھرا نگران اجلاس نے تربیتی اجلاس نے استقبالیہ کلمات پیش کیے انہوں نے ملک میں جمعیت علماء کی خدمات اور خانوادۂ مدنی کی موجودہ ملک و بیرونِ ملک خدمات پر جامع روشنی ڈالی، اور بتایا کہ کس طرح یہ خدمات دین و ملت کے فروغ اور عوام کی فلاح کے لیے جاری ہیں حضرت مفتی محمود زبیر قاسمی نے کاماریڈی میں جمعیت علماء کے کارکنان و ذمہ داران کو تربیتی اجلاس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور شرکاء کو آئندہ بھی جمعیت علماء کے تعمیری پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دی انہوں نے زور دیا کہ جماعت کا اصل مقصد منصب یا عہدہ نہیں بلکہ ملک و ملت کی خدمت اور دین کے فروغ کے لیے خادمین کی محنت ہے، اور یہی جذبہ جمعیت علماء کی شناخت ہے حافظ محمد فہم الدین منیری حفظہ اللہ نائب صدر جمعیت علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش اور صدر ضلع کاماریڈی نے اجلاس کی غرض و غایت پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک و ملت کی تعمیر اور ترقی میں ہمارے اکابر اور مخلص کارکنان مسلمانوں کی جو خدمات رہی ہیں، ان کو جاری رکھنا ہمارا فریضہ ہے انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء کا اصل مقصد ملک میں پیار و محبت کی فضا قائم کرنا نفرت کو محبت میں بدلنا معاشرے کے بگاڑ کو درست کرنا، تعلیم کو عام کرنا اور غریبوں کی مدد کرنا ہے انہوں نے بتایا کہ اسی مقصد کے تحت حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی ھدایت پر جمعیت علماء سے وابستہ افراد کی ذہن سازی اور تربیت کے لیے تربیتی اجلاس منعقد کیے جا رہے ہیں، حضرت مولانا مفتی غیاث الدین صاحب رحمانی قاسمی صدر جمعیت علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش کی نگرانی میں مسجد نور کاماریڈی میں بھی یہ تربیتی اجلاس منعقد ہوا، جس پر ہم تمام شرکاء کا دل کی گہرائیوں سے استقبال کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کریں گے انہوں نے مزید کہا کہ ہفتہ واری اور ماہانہ پروگراموں کا انعقاد مکاتب قرآنیہ کا استحکام آپسی اختلافات وتنازعات کو شرعی حکم کے مطابق دور کریں گے اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمے کے لیے جمعیت علماء کے کارکنان کو اکابرین کی ہدایت کے مطابق کام کو آگے بڑھائیں گے منڈل اور محلہ واری سطح پر قائم تمام یونٹس کو مزید بہتر اور مستحکم کریں گے حافظ صاحب کی گذارشات کو کارکنان وصدور نے عملی جامہ پہنانے کا عہد کیا

اجلاس میں جناب محب اللہ امین صاحب، جنرل سیکرٹری جمعیت علماء کرناٹک، بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کے لیے موجود تھے۔ اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ محترم مفتی ابراہیم خان صاحب صدر جمعیت علماء نظام آباد مولانا غلام رسول قاسمی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علماء نظام آباد محترم حافظ محمد صادق صاحب نائب صدر جمعیت علماء کریم نگر محترم مفتی عمر بن عیسی صاحب حافظ شکیل صاحب جمعیت علماء بانسواڑہ امتیاز بھائی، مولانا محمد علی صاحب امام و خطیب جامع مسجد بانسواڑہ صدر تنظیم المساجد بانسواڑہ سید یداللہ صاحب، صدر تنظیم المساجد پٹلم؛ حافظ سید عبدالمقیط نائب صدر جمعیت علماء پٹلم مولوی حافظ محمد عبدالعلیم فاروقی بچکندہ (ضلعی جمعیت سکریٹری) محترم حافظ عبداللہ صاحب صدر جمعیت علماء چیگنٹہ میدک حافظ عبدالعزیز صاحب صدرجمعیت رامائم پیٹ محترم جناب محمد انور صاحب ناظم مدرسہ دارالعلوم حلیمیہ نظام پیٹ اور قاری مجاہد صدیقی آرگنائزر جمعیت علماء سرسلہ مولانا مرتضی صاحب نائب صدر جمعیت علماء میڈچل مفتی عمران خان قاسمی صدر مقامی جمعیت علماء کے علاوہ اطراف و اکناف کے معزز علماءکرام حفاظ عظام، آئمہ مساجد صدور دانشوران ملت اور جمعیت کے اراکین کی کثیر تعداد موجود تھی اجلاس کا اغاز حافظ محمد عبدالرحمن حلیمی صدر جمعیت علماء ضلع میڈچل کی روح پرور تلاوتِ کلام پاک سے ہوا جبکہ مولانا حافظ ابوالکلام صاحب صدر جمعیت علماء ضلع سرسلہ نے ہدیہ نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی حافظ محمد جہانگیر صاحب حلیمی زید مجدہ خازن جمعیت علماء تلنگانہ و آندھرا نے خدمتِ خلق پر خطاب فرمایا مولانا مفتی ریحان قاسمی نے افتتاحی کلمات پیش کیے اور نظامت کے فرائض انجام دیے مولانا سید منظور احمد مظاہری حافظ محمد عبدالواجد حلیمی الحاج سید عظمت علی الحاج فاروق علی محمد جاوید علی الحاج محمد واجد الحاج شیخ اسماعیل الحاج شیخ مقیم الدین محمد ماجد اللہ محمد عبدالرزاق مولانا شعیب خان حافظ محمد مشتاق احمد حلیمی حافظ محمد تقی حافظ محمد عبدالرحمن منیری مسجد نور نے مہمانوں کا استقبال کیاحافظ محمد یوسف حلیمی انور نے اظہارِ تشکر پیش کیا

اپنا تبصرہ بھیجیں