ہندوستانی نژاد محمود ممدانی اور میرا نائر کے فرزند ’ظہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم میئر‘

حیدرآباد (دکن فائلز) نیویارک میں امریکی تاریخ کا نیا باب رقم ہو گیا ہے، جہاں 34 سالہ ظہران ممدانی شہر کے پہلے مسلمان میئر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ جیت نہ صرف ان کی ذاتی کامیابی ہے بلکہ امریکا میں ترقی پسند سیاست کے لیے بھی ایک بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ ان کی یہ جیت نہ صرف ایک سیاسی کامیابی ہے بلکہ ایک ایسی کہانی بھی ہے جو جدوجہد، تنوع اور نئی نسل کی قیادت کی علامت بن گئی ہے۔

ڈیموکریٹک سوشلسٹ ظہران ممدانی نے سابق گورنر اینڈریو کومو کو شکست دے کر سب کو حیران کر دیا۔ کومو نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا، مگر ممدانی نے اپنی جرات مندانہ مہم اور عوام دوست پالیسیوں سے نیویارک کے ووٹروں کے دل جیت لیے۔ یہ تاریخی جیت ثابت کرتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود، ظہران ممدانی نے اپنے عزم اور عوامی حمایت کی بدولت کامیابی حاصل کی۔

ظہران ممدانی نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ممدانی 18 اکتوبر 1991 کو یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے، لیکن ان کی پرورش نیویارک شہر میں ہوئی۔ ظہران ممدانی کا تعلق ہندوستانی نژاد خاندان سے ہے جو علم، فن اور سماجی شعور کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان کی والدہ مشہور فلم ساز میرا نائر ہیں، جبکہ والد محمود ممدانی ہندوستانی نژاد ہیں اور ایک نامور اسکالر اور محقق ہیں۔ ظہران کے سیاسی نظریات اور عوامی خدمت کا جذبہ انہی دونوں شخصیات کی فکری میراث سے پھوٹتا ہے۔

ظہران کے والد محمود ممدانی 1946 میں ممبئی میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی یوگنڈا کے شہر کمپالا میں گزاری۔ وہ افریقہ میں نوآبادیاتی نظام اور سیاسی تشدد کے موضوع پر سب سے زیادہ معزز محققین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ 1972 میں عیدی امین کے دورِ حکومت میں جب ایشیائی نژاد افراد کو یوگنڈا سے نکالا گیا، تو وہ بھی اس جبر کا شکار ہوئے۔ مگر اس آزمائش نے ان کے علمی عزم کو کمزور نہیں کیا۔ انہوں نے 1974 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں کولمبیا یونیورسٹی میں حکومت اور بشریات کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

اگر میرا نائر کی بات کی جائے تو ان کا فن بھی عالمی سطح پر اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ 1957 میں راؤرکیلا میں پیدا ہونے والی میرا نائر نے اپنی فلموں کے ذریعے دنیا بھر میں بھارتی معاشرت، شناخت، ہجرت اور ثقافتی میل جول کے پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کی 1988میں پہلی فلم ”سلام بمبے“ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ۔ یہ فلم کانز فلم فیسٹیول میں کیمرہ ڈی’اور انعام جیتنے کے ساتھ آسکر کے لیے بھی نامزد ہوئی۔ ان کی بعد کئی فلموں نے ان کی فلمی شناخت کو مزید مضبوط کیا۔

وہیں ظہران ممدانی کا سفر یوگنڈا میں پیدا ہونے سے لے کر نیویارک کے میئر بننے تک، صرف ایک شخص کی کامیابی کی داستان نہیں، بلکہ نسل در نسل علم، فن، ہجرت اور انصاف کی جستجو کی کہانی ہے۔ وہ اپنے والدین کی فکری وراثت کو سیاست میں ڈھال کر ایک ایسے مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں جہاں رنگ، نسل اور پس منظر سے بالاتر ہو کر انسانیت اور برابری کو ترجیح دی جائے۔ نیویارک کی گلیوں میں اب ایک نیا باب شروع ہو چکا ہے اور اس کے عنوان پر لکھا ہے، ”ظہران ممدانی، عوام کی آواز، تبدیلی کا نشان۔“

اپنا تبصرہ بھیجیں