حیدرآباد (دکن فائلز) اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینی قیدیوں کے لیے سزائے موت کے غیرانسانی اورظالمانہ قانون کی پہلی منظوری دے دی۔ اجلاس کے دوران عرب رکنِ پارلیمنٹ ایمن عودہ اور انتہاپسند وزیر اتمار بن گویر کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی جو تقریباً ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔
اسرائیلی جریدے ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیر کے روز ’دہشت گردی‘ کے جرم میں سزائے موت کے قانون کی پہلی منظوری دی گئی۔ یہ بِل دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت، یہودی پاور پارٹی کے سربراہ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر کی جانب سے پیش کیا گیا، جسے 120 رکنی ایوان میں 39 کے مقابلے میں 16 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔
اب اس بِل کو دوسری اور تیسری منظوری کے لیے پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجا گیا ہے تاکہ منظوری کے بعد اسے قانون کا درجہ دیا جا سکے۔ بِل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’جو شخص نسل پرستی، نفرت یا اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کسی اسرائیلی شہری کو جان بوجھ کر یا لاپرواہی کے باعث ہلاک کرے گا، اُسے سزائے موت دی جائے گی‘ اور اس سزا میں کسی قسم کی کمی یا رعایت کی اجازت نہیں ہوگی۔
ویڈیو دیکھنے کےلئے لنک پر کلک کریں:
https://x.com/N12News/status/1987994295153160331
ناقدین کا کہنا ہے کہ بِل کی زبان ایسی ہے کہ اس کے اطلاق کا نشانہ صرف فلسطینی بنیں گے جبکہ فلسطینیوں پر حملے کرنے والے یہودی انتہاپسند اس قانون سے مستثنیٰ رہیں گے۔ بِل کی منظوری کے بعد انتہاپسند وزیر بِن گویر نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’انکی جماعت ’یہودی پاور‘ تاریخ رقم کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو فلسطینیوں کے خلاف امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کہا ہے۔ فلسطینی وزارتِ خارجہ نے مجوزہ قانون کو ’فلسطینی عوام کے خلاف بڑھتی ہوئی اسرائیلی انتہاپسندی اور مجرمانہ رویے‘ کی نئی شکل قرار دیا۔
انسانی حقوق کی رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی قید ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جبکہ تشدد، بھوک اور علاج کی کمی کے باعث متعدد قیدی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔



