حیدرآباد (دکن فائلز) سپریم کورٹ نے پیر یکم دسمبر کو اوقاف کی لازمی ڈیجیٹائزیشن اور رجسٹریشن کے لیے حکومت کے قائم کردہ ’’امید (UMEED) پورٹل‘‘ پر معلومات اپ لوڈ کرنے کی مدت میں توسیع دینے سے انکار کر دیا۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ متحدہ اوقاف مینجمنٹ، ایمپاورمنٹ، ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ کی دفعہ 3B کے تحت اوقاف ٹریبونل کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مناسب معاملات میں وقت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ عدالت نے تمام درخواستیں اس liberty کے ساتھ نمٹا دیں کہ متعلقہ فریقین مقررہ مدت ختم ہونے سے قبل ٹریبونل سے رجوع کریں۔
سماعت کے آغاز میں سینئر ایڈووکیٹ کپِل سبل نے عدالت کو بتایا کہ ترمیم 8 اپریل 2025 سے نافذ ہوئی، مگر ’’امید‘‘ پورٹل 6 جون کو فعال ہوا اور قواعد 3 جولائی کو بنائے گئے، جبکہ ترمیمی قانون پر عبوری حکم 15 ستمبر کو آیا۔ ان کے مطابق چھ ماہ کی مدت ناکافی ہے، خصوصاً قدیم اوقاف کے لیے جہاں کئی سو سال پرانے اوقافی دستاویزات موجود نہیں یا دستیاب کرنا مشکل ہے۔
سبل نے سوال اٹھایا ’’اگر کوئی وقف سو سال پرانا ہے تو اس کا وقف نامہ کہاں سے ملے گا؟‘‘ سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منوسنگھوی نے بتایا کہ پورٹل میں تکنیکی خرابیاں (glitches) موجود ہیں اور متولیان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار قانون کی تعمیل کرنا چاہتے ہیں مگر صرف مزید وقت چاہتے ہیں۔
اس کے جواب میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ دفعہ 3B کی رو سے ٹریبونل انفرادی بنیاد پر وقت بڑھا سکتا ہے، اس لیے تمام اوقاف کو اپنی اپنی درخواستیں ٹریبونل میں دائر کرنی چاہئیں۔ ان کے مطابق چونکہ پورٹل 6 جون کو فعال ہوا، اس لیے آخری تاریخ 6 دسمبر بنتی ہے۔ مہتا نے مزید کہا کہ بڑی تعداد میں اوقاف پہلے ہی رجسٹر ہو چکے ہیں، اس لیے تکنیکی خرابیوں کا دعویٰ درست نہیں۔
کئی وکلا نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ ’’رجسٹریشن‘‘ نہیں بلکہ ’’ڈیجیٹائزیشن‘‘ کا ہے، جو دفعہ 3B کے تحت لازم ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد نے وضاحت کی کہ صرف وہی اوقاف پورٹل پر تفصیلات اپ لوڈ کر سکتے ہیں جو پہلے سے رجسٹر ہوں۔ ایک اور وکیل نے دلیل دی کہ چونکہ صوبائی حکومتوں نے دفعہ 4 کے تحت اوقاف کے سروے مکمل نہیں کیے، اس لیے رجسٹریشن کا تقاضا غیر عملی ہے۔
ایڈووکیٹ نظام پاشا نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق چھ ماہ کی مدت ترمیم کے نفاذ کے دن یعنی 8 اپریل سے شروع ہو چکی تھی اور 10 اکتوبر کو ہی مکمل ہو گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک بار ڈیڈ لائن بڑھائی ہے، لہٰذا مزید توسیع بھی دی جا سکتی ہے۔
بینچ نے استفسار کیا کہ کیا جب پہلے بینچ نے عبوری حکم میں توسیع دینے سے انکار کیا تھا، تو اب وہ مداخلت کر سکتے ہیں؟ درخواست گزاروں نے جواب دیا کہ وہ حکم ’’رجسٹریشن‘‘ سے متعلق تھا، جبکہ موجودہ مسئلہ ’’ڈیجیٹائزیشن‘‘ کا ہے۔
آخرکار عدالت نے وقت میں توسیع سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ دفعہ 3B کی پروویژو میں ٹریبونل کے ذریعے توسیع حاصل کرنے کا راستہ موجود ہے، اس لیے تمام درخواست گزار 6 ماہ کی مدت ختم ہونے سے قبل ٹریبونل سے رجوع کریں۔
یہ مقدمہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 سے متعلق ہے، جس نے تمام اوقاف بشمول ’’وقف بہ استعمال‘کی لازمی رجسٹریشن اور ڈیجیٹائزیشن کو لازم قرار دیا ہے۔ متعدد فریقین، بشمول آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ایم پی اسدالدین اویسی، نے اس مدت میں توسیع کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا، کیونکہ اُن کے مطابق پرانے اوقاف ڈیڈ لائن کے اندر مطلوبہ تفصیلات پورٹل پر فراہم نہیں کر سکیں گے، جس سے انہیں ناقابلِ تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔


