’لوجہاد‘ کے نام پر نفرت بھڑکانے کی سازش! گودی میڈیا کے خلاف این بی ڈی ایس اے کی ’نرم ترین‘ کاروائی

حیدرآباد (دکن فائلز) نیوز براڈکاسٹنگ اینڈ ڈجیٹل اسٹینڈرڈز اتھارٹی نے ایک اہم فیصلے میں پانچ قومی و علاقائی ٹی وی نیوز چینلز کو آڑے ہاتھوں لیا، جنہوں نے این سی ای آر ٹی کی تیسری جماعت کی ای وی ایس کی درسی کتاب میں شامل ایک فرضی خط کو ’’لو جہاد‘‘ سے جوڑ کر سنسنی اور نفرت پر مبنی نشریات چلائیں۔

یہ کارروائی میڈیا ریسرچر اندرا جیت گھورپاڈے اور ایڈووکیٹ اتکرش مشرا کی شکایات کے بعد عمل میں آئی، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ چینلز نے محض ایک بچوں کی درسی سرگرمی رینا نامی لڑکی کا احمد نامی لڑکے کو خط کو مذہبی رنگ دے کر ’’لو جہاد‘‘ کی جھوٹی سازش قرار دیا اور اسے اشتعال انگیز مباحثوں کی بنیاد بنا دیا۔

اپنے فیصلے میں NBDSA نے واضح کہا کہ مذکورہ چینلز ’’غیر جانب دارانہ اور ذمہ دارانہ صحافت‘‘ کے بنیادی تقاضوں سے منحرف ہوئے۔ اتھارٹی نے لکھاکہ “محض اس لیے کہ ایک این سی ای آر ٹی کتاب کے باب میں ایک لڑکی کو دوسرے مذہب کے لڑکے کو خط لکھتے دکھایا گیا ہے، اسے ‘لو جہاد’ کا رنگ دینا سراسر بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔”

اتھارٹی کے مطابق چینلز نے کسی والدین کی شکایت کی سادہ رپورٹنگ کے بجائے اسے یک طرفہ مباحثے میں بدل کر مخصوص بیانیہ پیش کیا، جس میں نہ تو کسی ماہر تعلیم یا متوازن رائے کو شامل کیا گیا اور نہ ہی کسی فریقِ مخالف کو جگہ دی گئی۔ بعض پروگراموں میں وہی مبصرین بلائے گئے جن کے شدت پسندانہ نظریات پہلے سے معروف ہیں، جس سے نشریات کی غیر جانب داری شدید متاثر ہوئی۔

فیصلے کے تحت نیوز18 ایم پی/چھتیس گڑھ، اے بی پی نیوز، زی ایم پی/چھتیس گڑھ، زی نیوز اور انڈیا ٹی وی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ متعلقہ ویڈیوز اپنی ویب سائٹس، یوٹیوب چینلز اور تمام آن لائن لنکس سے سات دن کے اندر فوری ہٹا کر تحریری طور پر تعمیل کی رپورٹ جمع کرائیں۔

متنازع نشریات 2023 اور 2024 کے دوران چلائی گئیں جن میں کلاس 3 ای وی ایس کے ایک سادہ سبق کو بار بار ’’لو جہاد کا سبق‘‘ قرار دیا گیا، اشتعال انگیز گرافکس، سرخیاں اور چیختے ہوئے ٹکرز استعمال کیے گئے، اور دائیں بازو کے چہرے — بشمول خود ساختہ مذہبی مبلغ دھیریندر شاستری کے الزامات کو یکطرفہ طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ کئی پروگراموں میں کسی بھی تنقیدی آواز یا حقیقت پر مبنی وضاحت کو شامل نہیں کیا گیا۔

کچھ چینلز پر ’’این سی ای آر ٹی کی کتاب میں لو جہاد‘‘ اور ’’سیلیبس بنا لو جہاد‘‘ جیسے ٹکرز چلائے گئے، جب کہ زی نیوز نے ایک تصویر نشر کی جس میں ایک عورت کو بیک وقت برقع اور گھونگھٹ میں تقسیم دکھایا گیا — جو واضح طور پر مذہبی خوف اور نفرت کو بھڑکانے کی کوشش ہے۔

میڈیا واچ گروپس طویل عرصے سے خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ بڑے نیوز چینلز ’’جہاد‘‘ کی اصطلاح کو غلط اور گمراہ کن انداز میں استعمال کر کے ’’لینڈ جہاد‘‘، ’’نارکوٹکس جہاد‘‘، ’’اکانومک جہاد‘‘ جیسے بے بنیاد بیانیوں کو ہوا دے رہے ہیں، باوجود اس کے کہ NBDSA کئی بار اس طرزِ صحافت سے اجتناب کرنے کی ہدایات جاری کر چکا ہے۔ تازہ کارروائی ایک بار پھر اس سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح من گھڑت سازشی نظریات کو پرائم ٹائم کے ذریعے عام کیا جا رہا ہے۔

ایک جمہوری اور متنوع معاشرے میں وہ میڈیا ادارے جو عوامی اعتماد کے امین ہوتے ہیں، جب وہی غیر مصدقہ سازشوں اور مذہبی نفرت کو بڑھاوا دینے لگیں تو یہ نہ صرف پیشہ ورانہ بددیانتی ہے بلکہ قومی یکجہتی کے لیے بھی شدید نقصان دہ ہے۔ این سی ای آر ٹی کی ایک معصوم درسی سرگرمی کو ’’لو جہاد‘‘ سے جوڑنا صحافت نہیں، بلکہ نفرت کو ہوا دینے کا کھلا عمل ہے جس کی سخت ترین مذمت ضروری ہے۔

میڈیا کو سماج کو جوڑنے والا ستون ہونا چاہیے، نہ کہ تقسیم اور خوف کا ذریعہ۔ NBDSA کا یہ فیصلہ ذمہ دارانہ صحافت کی جانب ایک لازمی قدم ہے، جسے مزید مضبوطی اور سختی کے ساتھ نافذ کیے جانے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں