حیدرآباد (دکن فائلز) تلنگانہ کے چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے آج پولیس شہیدان کی یاد میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کیا۔ انہوں نے اس موقع پر پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کو یاد کیا اور بھرپور خراج پیش کیا۔ انہوں نے گوشہ محل پولیس اسٹیڈیم میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سکندر آباد مندر میں توڑ پھوڑ معاملہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے پولیس عہدیداروں کو مندر پر حملہ کرنے والے شرپسند کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی ہدایت دی۔
قابل ذکر ہے کہ جاریہ سال ستمبر کے اوائل میں عادل آباد کے جینور میں فرقہ پرست شدت پسندوں کے ایک جھنڈ نے 6 مساجد پر حملہ کرکے بڑے پیمانہ پر توڑ پھوڑ کی تھی اور مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر نشانہ بنایا تھا۔ جینور تشدد میں مسلمانوں کی 100 کروڑ سے زیادہ کی املاک تباہوگئی لیکن ان سب کے باوجود تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کی جانب سے اب تک کوئی تنقیدی بیان سامنے نہیں آیا تھا تاہم کچھ روز قبل سکندر آباد میں واقع ایک مندر میں صرف ایک بددماغ شخص کی جانب سے توڑ پھوڑ کے معاملہ پر آج خود وزیراعلیٰ ریونت ریڈی بول پڑے اور اس واقعہ کی کڑے الفاظ میں مذمت کی اور پولیس عہدیداروں کو ملزم کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی ہدایت دی۔
اسی طرح جاریہ سال جون کے دوران عیدالاضحیٰ کے موقع پر میدک میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا جہاں کھلے عام بھگوا شدت پسندوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا لیکن پولیس نے متعدد مسلم نوجوانوں کو اس معاملہ میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا۔ اسی طرح جاریہ سال جنوری میں نلگنڈہ نارکٹ پلی کی مسجد میں بھی شرپسندوں نے ہنگامہ کیا لیکن اس معاملہ پر بھی حکومت اور پولیس خاموش رہی۔ اسی دوران رام مندر کے افتتاح کے موقع پر سنگاریڈی، نارائن پیٹ اور دیگر مقامات پر شرپسندی کی گئی لیکن اشرار کے خلاف نرم رویہ اختیار کیا گیا۔ مارچ میں ہولی کے موقع پر حیدرآباد کے مضافاتی علاقہ چنگی چڑلہ میں بھی مسجد کے سامنے شور شرابہ پر اعتراض کرنے کو بہانہ بناکر شرپسندوں نے خوب ہنگامہ آرائی کی۔ پولیس نے متعدد مسلم نوجوانوں کو سخت دفعات کے تحت مقدمات درج کرکے جیل بھیج دیا لیکن دوسرے طبقہ کے افراد کے خلاف انتہائی نرم رویہ اختیار کیا گیا۔ جولائی میں معین آباد کے چلکور میں ایک غیرآباد مسجد کو شہید کردیا گیا لیکن آج تک مسجد تعمیر نہیں کی گئی جبکہ اس معاملہ میں مسلم رہنماؤں کی جانب سے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی آر ایس دور حکومت میں کانگریس کے کچھ اقلیتی رہنما چوبیس گھنٹے مسلمانوں کے مسائل پر نہ صرف کھل کر بولتے تھے بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر کے سی آر حکومت پر تنقیدیں کیا کرتے تھے لیکن کانگریس حکومت بننے کے بعد مسلمانوں سے ہمدردی کا سیاسی ناٹک کرنے والے یہ رہنما اب کہیں نظر نہیں آتے جبکہ کانگریس حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے متعدد فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں مسلمانوں کی املاک اور مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور ان سب کے باوجود پولیس پر مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کاروائی کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا لیکن کانگریس کے مسلم لیڈر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ آج بھی حکومت کی پردہ پوشی کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سکندرآباد مندر واقعہ کی مسلمانوں کی جانب سے بھی کھل کر مذمت کی گئی۔
وزیراعلیٰ ریونت ریڈی کو چاہئے کہ وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا یکساں احترام کریں۔ کسی سیاسی فائدہ اور نقصان کی پرواہ کئے بغیر بھگوا شدت پسندوں کے خلاف بھی سخت رویہ اختیار کرے جو ریاست کے امن کو خراب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جینور میں بڑے پیمانہ پر مسلمانوں کا مالی نقصان ہوا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر جینور فساد متاثرین کی مدد کےلئے اقدامات کرے اور تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔