اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قبضہ ’غیر قانونی ہے جسے فلسطینیوں کے لیے اپنے حق خود ارادیت کے استعمال کے لیے پیشگی شرط کے طور پر ختم ہونا چاہیے۔‘
عرب نیوز کے مطابق جمعرات کو شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطین کی سرزمین پر آباد کاری کو کالونیل ازم سے الگ شناخت نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ کی مصنفہ اور 1967 سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے اسرائیلی قبضے سے متعلق معاملات میں درست زبان کے استعمال اور صحیح نقطہ نظر اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت پر زور دیا۔
نیویارک میں فارن پریس ایسوسی ایشن میں ایک بریفنگ کے دوران بات کرتے ہوئے قانونی سکالر اور انسانی حقوق کی ماہر البانی نے کہا کہ یہ رپورٹ جامع ہے اور بین الاقوامی قانون کے مسائل کے لیے ایک مکمل نقطہ نظر رکھتی ہے۔
اس رپورٹ میں ’ایک پیرا ڈائم شفٹ‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ’تنازع‘ کے بیانیے سے ہٹنا اور اسرائیل کے ’جان بوجھ کر اور جابرانہ آباد کاری کے قبضے‘ کو تسلیم کیا گیا ہے۔
البانی نے فلسطین کے مسئلے پر عالمی برادری کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو یہ دیکھنے میں کیا مشکل ہے کہ سرزمین پر 55 سال کی بربریت، قبضے اور فوج کی موجودگی قبضہ ہے۔‘
فرانسسکا البانی نے مزید کہا کہ یہ ’استثنیٰ‘ جو اسرائیلی حکام کو دیا گیا ہے، خاص طور پر مغربی ممالک نے، اس نے بین الاقوامی قانون کی طاقت کو کمزور کیا ہے اور ایک منفی مثال قائم کی ہے۔ اس نے مستقل بنیادوں پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
البانی نے فلسطینیوں کی زندگی کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار پر مغربی ریاستوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے اسرائیل کے قبضے اور اقدامات کی حمایت میں مغربی ریاستوں کے رویے کو ’بھائی چارہ‘ اور ’تحفظ پسندی‘ کی شکل قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس معاملے پر آگے بڑھنے کے حوالے سے اب بھی صفر پر ہیں اور قبضہ کرنے والے مزید خونخوار ہو گئے ہیں۔ تاہم البانی نے کہا کہ ’یہ ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ختم ہو جائے گا۔‘
Load/Hide Comments