فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ ریلیز سے پہلے ہی تنازع کا شکار ہو گئی ہے اور پولیس نے فلم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق کیرالہ کے ڈی جی پی انیل کانت نے ترواننتا پورم پولیس کو ’دی کیرالہ سٹوری‘ فلم بنانے والوں کے خلاف ریاست کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی۔
The teaser of Sudipto Sen's film 'A Kerala Story' has been shared widely with many believing the claim that 32000 Kerala women have become ISIS terrorists to be true. Alt News found the figure was not backed by available data. | @shinjineemjmdr @ArchitMetahttps://t.co/Pvhlfq3k56
— Mohammed Zubair (@zoo_bear) November 8, 2022
سوشل میڈیا پر اس فلم کو مسلم مخالف اور فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے کی سازش قرار دیا جارہا ہے۔ اس فلم کے ذریعہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کوشش بھی قرار دی جارہی ہے۔
Bollywood movie The Kerala story and Bollywood hatred against muslims an analysis
Watch the full video here 👇https://t.co/qP8AEuZqvq#TheKeralaStory pic.twitter.com/ex39HpP9Ob— Haque Media (@TheHaqueMedia) November 5, 2022
فلم ریلیز ہونے سے قبل ریلیز کئے گے ٹیزر میں دعویٰ کیا گیا کہ دس برسوں میں جنوبی ریاست سے 32,000 خواتین کو مذہب تبدیل کرکے شام اور افغانستان میں آئی ایس کے زیر قبضہ علاقوں میں لے جایا گیا۔ فلم کے ہدایت کار سدیپٹو سین ہیں اور پروڈیوس وی اے شاہ نے کیا ہے۔
Kerala govt must verify the matter . If it is true then it's a serious threat . If it is imaginary story then #KeralaGovt must take strong action for defaming the state in connection of ISIS@pinarayivijayan @CMOKerala @KeralaGovernor https://t.co/JYJ4KTIyVy
— Khalida Parveen (@kparveen2005) November 4, 2022
ٹیزر کا جائزہ لینے کے بعد پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ اس (ٹیزر) میں بہت سے دعوے بغیر کسی ثبوت کے کیے گئے تھے اور اس کا مقصد ’ریاست کے امیج کو خراب کرنا اور مختلف برادریوں کے درمیان نفرت کو ہوا دینا تھا۔‘
ایک سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ دفعہ 153 کی شق اے اور بی (عقیدے کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان بدامنی اور دشمنی کو فروغ دینا) اور تعزیرات ہند کی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ فلم مبینہ طور پر شمالی کیرالہ سے لاپتہ ہونے والی چار خواتین پر مبنی ہے جنہیں بعد میں اپنے شوہروں کی موت کی اطلاع کے بعد افغانستان کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ دو سال قبل وزارت خارجہ نے انہیں ملک واپس لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ٹیزر میں نقاب پوش ایک خاتون کو دکھایا گیا ہے جس نے اپنی شناخت کیرالہ سے تعلق رکھنے والی شالینی اننی کرشنن عرف فاطمہ با کے نام سے کرائی کہ ’وہ ریاست سے 32,000 تبدیل ہونے والی خواتین میں سے ایک تھی اور بعد میں اسلامک اسٹیٹ کے لیے لڑنے کے لیے شام اور یمن بھیجی گئی۔‘