کشمیر فائلز کے بعد اب فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے ذریعہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش، کیرالا پولیس نے فلم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، سنگھ پریوار سے وابستہ افراد سوشل میڈیا پر سرگرم، فلم کو سچی کہانی ظاہر کرنے کی ناپاک کوشش

فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ ریلیز سے پہلے ہی تنازع کا شکار ہو گئی ہے اور پولیس نے فلم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق کیرالہ کے ڈی جی پی انیل کانت نے ترواننتا پورم پولیس کو ’دی کیرالہ سٹوری‘ فلم بنانے والوں کے خلاف ریاست کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی۔

سوشل میڈیا پر اس فلم کو مسلم مخالف اور فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے کی سازش قرار دیا جارہا ہے۔ اس فلم کے ذریعہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کوشش بھی قرار دی جارہی ہے۔

فلم ریلیز ہونے سے قبل ریلیز کئے گے ٹیزر میں دعویٰ کیا گیا کہ دس برسوں میں جنوبی ریاست سے 32,000 خواتین کو مذہب تبدیل کرکے شام اور افغانستان میں آئی ایس کے زیر قبضہ علاقوں میں لے جایا گیا۔ فلم کے ہدایت کار سدیپٹو سین ہیں اور پروڈیوس وی اے شاہ نے کیا ہے۔


ٹیزر کا جائزہ لینے کے بعد پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ اس (ٹیزر) میں بہت سے دعوے بغیر کسی ثبوت کے کیے گئے تھے اور اس کا مقصد ’ریاست کے امیج کو خراب کرنا اور مختلف برادریوں کے درمیان نفرت کو ہوا دینا تھا۔‘
ایک سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ دفعہ 153 کی شق اے اور بی (عقیدے کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان بدامنی اور دشمنی کو فروغ دینا) اور تعزیرات ہند کی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ فلم مبینہ طور پر شمالی کیرالہ سے لاپتہ ہونے والی چار خواتین پر مبنی ہے جنہیں بعد میں اپنے شوہروں کی موت کی اطلاع کے بعد افغانستان کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ دو سال قبل وزارت خارجہ نے انہیں ملک واپس لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ٹیزر میں نقاب پوش ایک خاتون کو دکھایا گیا ہے جس نے اپنی شناخت کیرالہ سے تعلق رکھنے والی شالینی اننی کرشنن عرف فاطمہ با کے نام سے کرائی کہ ’وہ ریاست سے 32,000 تبدیل ہونے والی خواتین میں سے ایک تھی اور بعد میں اسلامک اسٹیٹ کے لیے لڑنے کے لیے شام اور یمن بھیجی گئی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں