عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور امریکی محکمہ صحت (سی ڈی سی) سمیت متعدد ممالک میں کی جانے والی حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جنسی عمل سے پھیلنے والی خطرناک بیماری ’آتشک‘ یا ’سوزاک‘ جسے انگریزی میں ’سفلس‘ (syphilis) کہا جاتا ہے حالیہ سالوں میں دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔
یہ بیماری غیر محفوظ جنسی عمل کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اور ابتدائی طور پر مرد یا خاتون کے جنسی اعضا اس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس سے پورا جسم متاثر ہوجاتا ہے۔ اس بیماری کی خطرناک بات یہ ہے کہ آغاز میں اس کی علامات تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور متاثرہ شخص کو لگتا ہے کہ اسے کوئی خطرناک بیماری نہیں بلکہ دوسری کوئی عام بیماری ہے۔
یہ بیماری جسم پر سرخ دانوں، دھبوں، داغوں اور زخموں کی صورت میں ہوتی ہے اور اگر اس کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو اس کے خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ اس بیماری کو قدیمی جنسی بیماری کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اور اس کی پہلی تشخیص 15 ویں صدی کے اختتام پر ہوئی تھی اور 20 ویں صدی کے وسط تک یہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماری تھی لیکن بعد ازاں 1950 کی دہائی کے بعد اس میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی۔
لیکن اب 70 سال بعد ایک بار پھر اس میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور رپورٹس کے مطابق صرف امریکہ میں ہی پہلی بار سات دہائیوں بعد اس کے کیسز میں 32 فیصد تک اضافہ ریکارڈ ہوا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’آتشک‘ یا ’سوزاک‘ کے کیسز میں حیران کن طور پر امریکہ، برطانیہ، برازیل، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں 32 فیصد سے زائد اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی ادارے سی ڈی سی نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ’آتشک‘ کی بیماری میں 2020 اور 2021 میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا اور 70 سال بعد وہاں ریکارڈ کیسز رپورٹ ہوئے۔ امریکی محکمہ صحت کے مطابق وہاں نہ صرف ’سوزاک‘ کی بیماری میں اضافہ رپورٹ ہوا بلکہ وہاں اس بیماری کی وجہ سے سنگین تبدیلیاں بھی دیکھی جا رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ سمیت دیگر ممالک میں اس بیماری میں مبتلا ہونے والی خواتین حاملہ ہونے کے بعد اپنے بچوں میں بھی یہ مرض منتقل کر رہی ہیں جب کہ اس بیماری کی شکار خواتین کے ہاں بچوں کی قبل از وقت پیدائش، حمل کے ضائع ہوجانے، بچے کے ماں کے پیٹ میں مرجانے اور بچوں کے پیدائش کے فوری بعد انتقال کرجانے جیسے واقعات میں بھی اضافہ رپورٹ کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جاپان میں اس بیماری پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہاں جنسی عمل میں ملوث زیادہ تر افراد کنڈوم کا استعمال نہیں کر رہے، علاوہ ازیں تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذکورہ بیماری اب زیادہ ہم جنس پرستوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔