ہریانہ کے فریدآباد میں ایک مسلم نوجوان کی پولیس حراست میں موت کا معاملہ سامنے آیا ہے جس کے بعد پورے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ متوفی کے افراد خاندان نے پولیس پر بری طرح مارپیٹ کا الزام لگایا۔ جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ جس دن سے نوجوان کو گرفتار کیا گیا اس دن سے اس کی طبیعت خراب تھی اور ہسپتال میں اس کا مسلسل معائنہ کیا جا رہا تھا۔ پولیس اہلکار کسی بھی قسم کی زیادتی اور لاپرواہی سے انکار کر رہے ہیں۔
ہریانہ میں پولیس حراست میں شیخل خان کی مشتبہ موت کے بعد اس کے افراد خاندانہ نے پولیس کے خلاف احتجاج کیا اور مارپیٹ کا الزام عائد کیا۔ راجستھان کے گووند گڑھ کے ٹکری کے مسلم نوجوان کی مبینہ طور پر ہریانہ پولیس کی حراست میں موت ہوگئی۔
پولیس کے مطابق دھوکہ دہی کے ایک معاملے میں 29 سالہ مسلم نوجوان شیخل خان کو گرفتار کیا گیا تھا، سانس لینے میں دقت کی شکایت کے بعد اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں علاج کے دوران اس کی موت ہوگئی۔
متوفی کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے نوجوان کو 4 روز قبل سائبر فراڈ کیس میں پھنساکر گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد سے پولیس اسے مسلسل تشدد کا نشانہ بنا رہی تھی۔ لواحقین کا الزام ہے کہ 2 روز قبل جب وہ نوجوان سے ملنے آئے تھے تو اس نے بتایا تھا کہ پولیس نے اسے بری طرح مارا ہے۔ نوجوان نے کسی طرح جیل سے باہر نکالنے کی خاندان سے خواہش کی، جس کے بعد لواحقین نے پولیس افسران سے اپیل کی تھی کہ وہ اسے تشدد کا نشانہ نہ بنائے۔
لیکن دو روز بعد گذشتہ پیر کی صبح گھر والوں کو اسپتال سے فون آیا کہ نوجوان کی موت ہوگئی ہے۔ اب متوفی کے اہل خانہ اس معاملے کے ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لواحقین نے بتایا کہ متوفی کی 3 ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی۔ پولیس حراست میں نوجوان کی موت کے بعد اب اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری جاری ہے۔ جوڈیشل انکوائری کے بعد ہی حقیقت سامنے آئے گی۔ دوسری جانب پولیس کے مطابق سائبر فراڈ کیس میں ملزم کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد اسے عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کیا گیا تھا۔