نوح فسادات کے بعد ہریانہ حکومت نے اترپردیش ماڈل کے تحت اقلیتی فرقہ کے سینکڑوں مکانات، دکانات، جھونپڑیوں کو بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کردیا تھا تاہم چار دن جاری رہنے والی ظالمانہ کاروائی کے بعد ہائیکورٹ کی جانب سے اس کاروائی پر روک لگائی گئی۔
ہریانہ ہائیکورٹ کی جانب سے بلڈوزر کاروائی پر روک لگائے جانے کا جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے خیرمقدم کیا وہیں انہوں نے بلڈوزر کاروائی کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہائیکورٹ نے کاروائی پر تو لوگ لگادی لیکن جن کے گھر مسمار کردیئے گئے اور جن کی دکانیں تباہ کردی گئیں ان کی بازآباد کاری اور انہیں معاوصہ دینے سے متعلق کورٹ نے کوئی حکم نہیں دیا۔
اب جمعیۃ علماء ہند نے متاثرین کی بازآباد کاری اور انہیں معاوضہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ عرضی میں عدالت اعظمیٰ سے ریاستوں کو بلڈوزر کاروائی سے روکنے کی درخواست کی گئی اور اس طرح کی کاروائی کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔ درخواست میں کہا گیا کہ صرف الزام عائد کرتے ہوئے حکومتوں کی جانب سے بلڈوزر کروائی کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے قبل ازیں اترپردیش و دیگر ریاستوں میں بلڈوزر کاروائی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی جس پر سماعت جاری ہے۔ نوح میں بلڈوزر کاروائی کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے ایک بار پھر اس معاملہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔