محمد قاسم ابھی چند سال قبل تک سنبھل میں اپنے والد کے ٹھیلے میں ان کی مدد کرتے ہوئے گندی پلیٹیں صاف کیا کرتے تھے، مگر اب جلد ہی وہ جج کے عہدہ پر فائز ہوں گے۔ انہوں نےپرووینشیل سوِل سروس (پی سی ایس) (جوڈیشیل) امتحان میں 135 واں رینک حاصل کرکے نہ صرف والدین کا بلکہ قوم و ملت کا سرفخر سے بلند کردیا ہے۔
29 برس کے قاسم کا ماضی جدوجہد اور پریشانیوں سے عبارت ہے مگر اسے انہوں نے اپنی کامیابی میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ سنبھل میں انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھنےو الے محمد قاسم نے نہ اپنی غربت کو اپنے حوصلوں کی اُڑان میں رکاوٹ بننے دیا اور نہ ہی اپنی تعلیم کو بوڑھے باپ کی مدد کی راہ میں حائل ہونے دیا۔وہ اسکول جاتے اس کے بعد اپنے والد کے ٹھیلے پر ان کا ہاتھ بٹاتے ، گندی پلیٹیں دھوتے اور پھر بچے ہوئے وقت میں پڑھائی کرتے مگر اب پی سی ایس میں ان کی کامیابی نے خاندان کی قسمت بدل دی ہے۔
قاسم اُن طلبہ کیلئے بھی مشعل راہ ہیں جو کسی امتحان میں ناکامیاب ہونے کے بعد ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ دسویں میں ایک بار فیل ہوجانے کے بعد بھی قاسم نے پڑھائی کا سلسلہ ترک نہیں کیا بلکہ پہلے گاؤں میں پھر وارسی جونیر کالج میں پڑھائی جاری رکھی۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے وہ کسی طرح علی گڑھ یونیورسٹی پہنچے جہاں انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور پھر دہلی یونیورسٹی سے 2019 میں نہ صرف ایل ایل ایم کیا بلکہ اس میں پوری یونیورسٹی میں اول مقام بھی حاصل کیا۔ 2021 میں انہوں نے یوجی سی نیٹ بھی پاس کرلیا جوپروفیسر بننے کیلئے ضروری ہے۔
جج کیلئے قاسم کے انتخاب کے بعد پورے خاندان میں خوشی کی لہر ہے۔ لوگوں کی مبارک بادیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پتریکا ڈاٹ کام کے اُپیندر سنگھ سے گفتگو کرتے ہوئے قاسم نے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے سرکاری اسکول میں حاصل کی۔ دسویں میں ایک بار فیل ہوئے مگر ہمت نہیں ہاری اور بالآخر اعلیٰ تعلیم کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچ گئے۔ یوجی سی نیٹ امتحان میں کامیابی کے بعد انہیں ۲؍ یونیورسٹیوں میں پروفیسر کے طورپر ملازمت کی پیشکش بھی ہوئی مگر انہوں نے جج کے امتحان میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اپنی کامیابی کیلئے ماں کے سر سہرا باندھتے ہوئے قاسم نے بتایا کہ اُن (امّی ) کا اعتماد اس قدر تھا کہ انہیں(قاسم کو) ڈر لگتا تھا کہ اگر وہ منتخب نہ ہوئے تو ماں کو کہیں کچھ ہو نہ جائے۔
قاسم کی والدہ انیسہ انصاری کہتی ہیں کہ ’’میں اِس سے ہمیشہ کہتی تھی کہ تو کام کر یا نہ کر مگر پڑھ لے کیوں کہ پڑھ کر کچھ بنے گا تو ہمارے لئے بھی معاون ہوگا۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ ’’اب مجھے امید ہے کہ یہ پوری ایمانداری سے کام کرےگا۔‘‘ اپنے بیٹے کی کامیابی پر نازاں ولی محمد نے کہا کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ قوم کی خدمت کریں۔ جب یہ پڑھتے تھے تو ہم ٹھیلہ چلا کر ان کو پڑھاتے تھے، ان کوپڑھنے کا شوق تھا اور ہمیں پڑھانے کا۔‘‘ محمد قاسم اپنی تقرری کا انتظار کررہے ہیں اور بطور جج اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے پُر عزم ہیں۔
(بشکریہ: انقلاب)