حیدرآباد (دکن فائلز) اترپردیش کے مظفرنگر میں ہم جماعت لڑکوں سے مسلم طالب علم کو خاتون ٹیچر کی جانب سے تھپڑ لگوانے کے معاملہ پر سپریم کورٹ نے سخت رخ اپنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے تبصرہ کیاکہ یہ ریاست کے ضمیر کےلئے ایک جھٹکا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک سینئر آئی پی ایس افسر کی نگرانی میں معاملہ کی تفتیش کرنے کی ہدایت دی۔ عدالت اعظمیٰ نے اس واقعہ کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک زندگی کے حق کا معاملہ میں۔ عدالت نے پردیش حکومت کو متاثرہ لڑکے اور اس واقعے میں ملوث دیگر طلباء کی پیشہ ورانہ مشیروں سے کونسلنگ کرانے کی بھی ہدایت دی۔
عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی سماعت 30 اکتوبر تک ملتوی کر دی اور اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ملوث طلباء کی کونسلنگ پر تعمیل کی رپورٹ داخل کرے اور متاثرہ بچے کی تعلیم کی ذمہ داری قبول کرے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں درج کی گئی ایف آئی آر پر بھی شدید اعتراض جتایا جس میں متاثرہ بچے کے والد کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا ذکر نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ باپ نے بیان دیا تھا کہ اس کے بیٹے کو اس کے مذہب کی وجہ سے مارا گیا، لیکن ایف آئی آر میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ یوپی حکومت کی جانب سے حق تعلیم قانون کی دفعات کی تعمیل کرنے میں ناکامی کا معاملہ ہے۔
وہیں اتر پردیش حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس کیس کے فرقہ وارانہ پہلو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ گذشتہ 6 ستمبر کو سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سے رپورٹ طلب کی تھی۔ اس میں پوچھا گیا کہ ملزم کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اور بچے کے خاندان کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔
واضح رہے کہ مظفرنگر کے ایک اسکول میں خاتون ٹیچر نے کلاس کے کچھ لڑکوں سے ایک مسلم طالب علم کو تھپڑ لگوائے اور اسلام سے متعلق نفرت انگیز باتیں کہی تھی۔ اس واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔