ہلدوانی میں بڑے پیمانہ پر گرفتاریوں اور بلڈزور کاروائی کا خدشہ، مسلمانوں میں شدید خوف و ہراس، انتظامیہ پر انتقامی رویہ کے تحت اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا الزام

حیدرآباد (دکن فائلز) اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں مسجد اور مدرسہ کو انتظامیہ کی جانب سے مسمار کرنے کی کاروائی کے خلاف ہوئے پرتشدد واقعات کو 50 گھنٹوں سے زیادہ کا وقت ہونے کے باوجود علاقہ میں روزبروز خوف و ہراس میں اصافہ دیکھا جارہا ہے۔ ونبھول پور کے کچھ علاقوں میں کرفیو کو ہٹادیا گیا۔ بی بی سی ہندی کی رپورٹ کے مطابق ایک مخصوص علاقہ میں نہ صرف کرفیو نافذ ہے بلکہ یہاں انتہائی سختی کے ساتھ امتناعی احکامات کو لاگو کیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں نہ کسی کو جانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اس علاقہ سے کسی کو باہر جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ یہاں سینکڑوں خاندان آج بھی اپنے گھروں میں بند ہیں۔

بی بی سی ہندی (نگار راگھویندر راؤ) کی رپورٹ کے مطابق کچھ لوگ ضروری اشیا لینے کےلئے سڑک پر نکلیں تو ایک پولیس اہلکار نے انہیں انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ’واپس جاؤ، کئی مہینے اندر رہنے کی تیاری کرو‘۔ وہیں دوسری طرف خود وزیراعلیٰ نے علاقہ کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ انتائی سخت لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے کچھ بڑا کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔

تشدد کے دوران پولیس فائرنگ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ پولیس نے تقریباً 5 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ جن پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے ان میں محبوب عالم، ذیشان پرویز، ارشد، جاوید صدیقی اور اسلم شامل ہیں۔ مہلوکین اور گرفتار افراد کا تعلق اقلیتی طبقہ سے بتایا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے کی جارہی کاروائی پر لوگوں کی جانب سے شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں اور پولیس پر جانبداری کرتے ہوئے ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ مقامی لوگوں کی جانب سے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کو بڑے پیمانہ پر نشانہ بنایا جاسکتا ہے، ان کے خلاف بڑے پیمانہ پر بلڈوزر کاروائی اور گرفتاریاں جاسکتی ہیں۔

انتظامیہ نے پانچ ہزار نامعلوم افراد پر مقدمات درج کرکے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ تشدد میں مہلوکین کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے جبکہ مسلمانوں کی ہی دکانیں اور گھر تباہ ہوئے۔ جو کچھ باقی رہ گیا تھا اب اسے بلڈوزر کاروائی کے ذریعہ ختم کرنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ہلدوانی میونسپل کارپوریشن کے کمشنر پنکج اپادھیائے نے کہاکہ ونبھول پورہ کا ایک بڑا حصہ، جہاں پولیس پر پتھراؤ کیا گیا تھا غیرقانونی ہے۔ اس کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ کس طرح غیرقانونی تعمیرات کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے۔

ایک اطلاع کے مطابق ملزمین کے خلاف کارروائی کے نام پر مسلمانوں پر تشدد کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر مسلم علاقہ میں پولیس کی نامناسب کاروائی سے متعلق اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس اہلکار گھروں میں گھس کر مجرمین کی گرفتاری کے نام پر بے گناہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔

دریں اثنا، اتراکھنڈ کانگریس کے سربراہ کرن مہرا کی قیادت میں انڈیا اتحاد کی اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ایک وفد نے اتراکھنڈ کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل سے ملاقات کرکے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور ریاستی حکومت سے قانون و آئین کے مطابق کام کرنے کو کہیں۔ وفد نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستی انتظامیہ فرقہ وارانہ اور انتقامی رویہ سے باز آجائے اور قانون کے مطابق کام کرے۔ بعد ازاں شام کو اپوزیشن لیڈروں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے گاندھی پارک میں مظاہرہ کیا اور عوام سے ریاست میں امن برقرار رکھنے کی اپیل کی۔

وفد میں شامل اندریش میخوری، سکریٹری، سی پی آئی (ایم ایل) نے ایک بیان میں ونبھول پورہ علاقے میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف پولیس کے جبر کی رپورٹوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے غنڈوں کے طور پر کام نہیں کرسکتے اور ریاستی انتظامیہ قانون اور آئین کی پاسداری کی پابند ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو مبینہ مجرموں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے لیکن 50 ہزار سے زائد مسلم آبادی کے خلاف اجتماعی سزائیں بالکل ناقابل قبول ہیں۔انہوں نے کہا کہ”ایسے متعدد واقعات ہوئے ہیں جہاں جمعرات کو مقامی مسلمانوں نے پولیس اہلکاروں اور صحافیوں کو ہجوم کے تشدد سے بچایا۔ خواتین کے خلاف پولیس کا جبر سول سوسائٹی میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں