اب اجمیر کی تاریخی مسجد ’ڈھائی دن کا جھونپڑا‘ نشانے پر، جین مندر ہونے کا دعوی

(دعوت نیوز) کاشی متھرا اور دیگر تاریخی مساجد کے بعد اب ایک اور مسجد نشانے پر ہے۔ اجمیر کی ایک تاریخی اور معروف قدیم مسجد ڈھائی دن کا جھوپڑا بھی اب شر پسندوں کے نشانے پر آ گیا ہے۔ جین پیرو کاروں نے یہاں قدیم جین مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے متھر اور کاشی کی مساجد کی طرح اس کا بھی سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق حال ہی میں چند جین پیروکاروں نے اڈھائی دن کا جھوپڑا مسجد کا دورہ کیا اور وہاں سنسکرت اسکول اور قدیم مندر کے آثار ہونے کے دعوے کئے۔

اجمیر کے ڈپٹی میئر نیرج جین نے ہفتہ کو یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس احاطے میں ایک جین مندر ہے اور تباہ شدہ مجسموں کے باقیات بھی ملے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ”پہلے، یہ جگہ سرسوتی کانٹھ بھرانا مہاودیالیہ تھی، جس پر حملہ آوروں نے قبضہ کرنے اور اسے منہدم کرنے کی کوشش کی۔ ماضی میں بھی، ہم نے اس جگہ کے تحفظ اور فروغ کا مطالبہ کیا تھا،‘‘ اجمیر کے ڈپٹی میئر نیرج جین نے دعویٰ کیا کہ جین منی آچاریہ ساگر کے دورہ نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے کہ اس جگہ پر سنسکرت اسکول کے ساتھ ایک جین مندر بھی تھا۔انہوں نے کاشی وشوناتھ، ایودھیا اور متھرا کی طرز پر اس جگہ پر سروے کرانے کا مطالبہ کیا۔

جین نے کہا کہ آچاریہ سنیل ساگر مہاراج نے یہاں اپنے دورے کے دوران اس بات کی تصدیق کی کہ پارھوناتھ غار کے اندر سو سے زیادہ مورتیاں پائی گئیں۔ “یہاں بھی ایک سروے کی ضرورت ہے،” ۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے سنیل ساگر مہاراج نے دعویٰ کیا کہ جب وہ پارشواناتھ غار گئے تو وہاں سو سے زائد مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کسی زمانے میں جین مندر ضرور رہا ہوگا۔ ان مسائل کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہیے۔ جہاں مسجدیں ہیں وہیں رہیں، لیکن جہاں مندر وغیرہ تھے ، انہیں ان کی قدیم شکل میں واپس لایا جانا چاہیے،‘

اس یادگار کے پیچھے ایک طویل اور کافی متنازعہ تاریخ کا دعویٰ کیا جا تا ہے۔ کچھ مورخین کہتے ہیں کہ پہلے یہ سنسکرت کا ایک بہت بڑا کالج ہوا کرتا تھا، جہاں تمام جدید مضامین سنسکرت میں پڑھائے جاتے تھے۔

جب افغان حکمران محمد غوری کا یہاں سے گزر ہوا تو کمانڈر قطب الدین ایبک نے اس کے حکم پر سنسکرت کالج کو مسمار کر کے اس کی جگہ ایک مسجد تعمیر کر دی۔کمپلیکس میں ہندو، اسلامی اور جین فن تعمیر کی ملی جلی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ایک روایت ہے کہ مسجد کا ایک حصہ ڈھائی دن میں بن گیا تھا اس لیے اس کا نام اڈھائی دن کا جھونپڑا پڑ گیا۔ یہ مسجد ہندوستان کی قدیم ترین مسجدوں میں سے ایک ہے اور یہ اجمیر کی قدیم ترین یادگار بھی ہے۔ 1192 عیسوی میں ایبک کی طرف سے شروع کی گئی اور ہرات کے ابوبکر نے ڈیزائن کیا، یہ ہند-اسلامی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ (بشکریہ دعوت نیوز)

اپنا تبصرہ بھیجیں