ملک میں مسلمانوں پر مظالم کے واقعات میں اضافہ کی مذمت، سیاسی و غیر سیاسی طاقتیں لائحہ عمل تیار کریں: یونائٹیڈ مسلم فورم کا بیان

حیدرآباد (پریس نوٹ) یونائیڈ مسلم فورم نے نریندر مودی حکومت کی تیسری میعاد کے دوران ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہورہے مظالم, سماج کو بانٹنے کی تازہ کوششوں, بی جے پی قائدین کے نفرت و تعصب پر مبنی مسلسل بیانات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فورم کے ذمہ داران مولانا مفتی سید صادق محی الدین فہیم ( صدر )، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری، مولانا سید شاہ حسن ابراہیم حسینی قادری سجاد پاشاہ، مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی، مولانا میر قطب الدین علی چشتی، جناب ضیا الدین نیر، جناب سید منیر الدین احمد مختار (جنرل سکریٹری)، مولانا سید شاہ ظہیر الدین علی صوفی قادری، مولانا محمد شفیق عالم خان جامعی، مولانا سید مسعود حسین مجتہدی، مولانا مفتی محمد عظیم الدین انصاری، مولانا سید احمد الحسینی سعید قادری، مولانا مفتی معراج الدین علی ابرار، مولانا سید تقی رضا عابدی، مولانا ابوطالب اخباری، مولانا سید شاہ فضل اللہ قادری الموسوی، مولانا میر فراست علی شطاری، جناب ایم اے ماجد، مولانا خواجہ شجاع الدین افتخاری حقانی پاشاہ، مولانا ظفر احمد جمیل حسامی، جناب بادشاہ محی الدین، مولانا سید شیخن احمد قادری شطاری کامل پاشاہ، مولانا سید وصی اللہ حسینی، مولانا سید قطب الدین حسینی صابری، مولانا عبدالغفار خان سلامی، ڈاکٹر نظام الدین، جناب نعیم صوفی و دیگر ذمہ داران نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ پارلیمنٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ گذشتہ دس برس کی طرح مسلمانوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا جاتا رہا شاید اس کا اب اعادہ نہ ہوگا، لیکن چند سیکولر سیاسی جماعتوں کی مدد سے چلنے والی بی جے پی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے ایک ماہ کے اندر اپنے پچھلے دس سالہ دور کو نہ صرف دہرانا شروع کیا بلکہ اس میں مزید شدت پیدا کردی ہے.
اترپردیش اور اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے معاشی بائیکات کا عمل سرکاری سطح پر شروع کردیا گیا ہے۔ کانوڑیا یاترا کے طویل راستوں پر تمام دوکانات بلکہ تھیلہ بنڈیوں پر سامان فروخت کرنے والوں پر مذہب کی شناخت کے ساتھ نام لکھنے کا سرکاری حکم جاری کیا گیا۔ 240 کیلومیٹر طویل اس یاترا کی روٹ پر واقع سینکڑوں مسلم تاجرین کو روٹی روزی سے محروم کردیا جارہا ہے۔ یاترا کے لئے راستے روکے جاتے ہیں ہیلی کاپٹر سے پھول برسائے جاتے ہیں، جبکہ نماز جمعه یا عیدین کی نماز میں ایک صف بھی مسجد یا عیدگاہ کے باہر آجائے تو اس پر کاروائی کی جاتی ہے سنگین قوانین کے تحت گرفتاریاں کی جاتی ہیں۔
دوسری طرف غیر قانونی قبضوں کے نام پر سینکڑوں مسلم آبادیوں کو نیست و نابود کیا جارہا ہے۔ لکھنو کے اکبر نگر، مہاراشٹرا کے کولہا پور، مدھیہ پردیش اور آسام کے علاقوں میں بلڈوزر کی کاروائیاں اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ عدالت کے حکم التواء کے باوجود سرکاری انتظامیہ خود کو عدلیہ سے بالاتر سمجھتے ہوئے ان کاروائیوں کو انجام دے رہا ہے۔
آسام کا چیف منسٹر مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کا شوشہ چھوڑتے ہوئے ہندو طبقہ کو ڈرا رہا ہے، اس کے ذریعہ وہ ہندو مسلم یکجہتی اور بھائی چارگی میں رخنہ پیدا کررہا ہے۔ مسلم آبادی سے متعلق اس کے بیانات صرف جھوٹ اور نفرت پر مبنی ہیں۔ ملک کی آزادی کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کے حوالے سے اس نے غلط اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کیا ہے۔
فورم کے ذمہ داران اس کے ان بیانات کی مذمت کرتے ہوتے اس کے طرز پر ملامت کرتے ہیں۔ مہاراشٹرا کے کولہاپور کے ایک گاؤں میں شرپسندوں اور پھر اس کے بعد حکومت کی جانب سے کی گئی انہدامی کاروائی کی فورم نے مذمت کی ہے۔ ملک میں جھوٹے الزامات کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاریاں ان کے مکانات و دوکانات کو تباہ کئے جانے، ان کے معاشی بائیکاٹ کی کوششوں کو سنگین قرار دیتے ہوئے فورم کے ذمہ داروں نے ملک میں دستور و جمہوریت کی پاسبان سیاسی و غیر سیاسی طاقتوں کو ایک لائحہ عمل کی دعوت دی، فورم بھی ملک کے دستور کے تحت ہر سطح پر فرقہ پرست و غنڈہ عناصر کو سماج میں یکا و تنہا کرنے کی کوششوں میں ساتھ رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں