مونکی پاکس وائرس پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے! وبا سے متعلق تفصیلات، احتیاطی تدابیر اور علاج

تحریر : سید عاصم محمود

پچھلے چند عشروں سے یہ خوفناک چلن جنم لے چکا کہ جانوروں کے جسم میں پائے جانے والے وائرس ، جراثیم اور بیماریاں پیدا کرنے والے دیگر نامیات (Organism)انسانوں میں منتقل ہو کر نت نئے امراض پیدا کرنے لگے ہیں۔ طبی اصطلاح میں یہ امراض ’’مرض حیوانی‘‘ (Zoonosis) کہلاتے ہیں۔

کئی ماہرین طب کا خیال ہے کہ جو چھوتی بیماری وسیع پیمانے پر انسانوں کو نشانہ بنانے لگے، وہ حیوانوں ہی سے آتی ہے، مثلاً کوویڈ وبا جو لاکھوں انسانوں کو نگل چکی۔ یہ وبا کسی جانور سے کوویڈ وائرس ایک انسان میں منتقل ہونے پر ہی شروع ہوئی۔

نیا عالمی خطرہ
اب عالمی ادارہ
صحت نے خبردار کیا ہے کہ جانوروں سے ایک اور وائرس بہ سرعت انسانی آبادی کا رخ کر رہا ہے۔ یہ ’’مونکی پاکس وائرس‘‘ (Monkeypox virus)کہلاتا اور ’’ایم پاکس‘‘ (Mpox) نامی چھوتی بیماری پیدا کرتا ہے۔ وسطی اور مغربی افریقہ میں پائے جانے والے ممالیہ اس وائرس کا اصل منبع ہیں۔ان ممالیہ میں بندر، چوہے اور گلہریاں شامل ہیں۔ یہ وائرس سب سے پہلے بندروں میں دریافت ہوا تھا، اسی لیے اس سے پیداشدہ مرض ’’مونکی پاکس‘‘ کہلانے لگا۔ مگر ماہرین نے احتجاج کیا کہ یہ صرف بندروں میں نہیں ملتا لہذا اس کا نام بدلا جائے۔ چناں چہ مرض کو ایم پاکس کہا جانے لگا۔

کیونکہ یہ بیماری کچھ عرصہ قبل تک افریقہ میں پائی جاتی اور وہاں سے باہر کم ہی نکلتی تھی۔ مگر اب یہ افریقی ممالک آنے جانے والے مسافروں اور سیاحوں کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ یوں بنی نوع انسان کے لیے بھی ایک اور طبی خطرہ نمودار ہو چکا۔ اگر اس وائرس کا سدباب نہیں کیا گیا تو عین ممکن ہے، اس کی نئی اشکال و اقسام مستقبل میں کوویڈ وائرس کی طرح لاکھوں انسانوں کی جان لے لیں۔ اسی لیے عالمی ادارہ صحت نے تمام ملکوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ مونکی پاکس وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔ یہی وجہ ہے، دنیا بھر میں مسافروں اور سیاحوں کی سکریننگ کا عمل شروع ہو گیا ۔

تاریخ
مونکی پاکس وائرس 1958ء میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے دریافت کیا تھا مگر اس نے شدت 2020ء سے اختیار کی۔ اس طرح وہ کوویڈ وائرس کا ساتھی بن گیا۔ اس سال ایم پاکس کے 4,600 کیس سامنے آئے اور 171 انسان چل بسے۔ 2022–2023ء کے دوران 93,327 کیس ریکارڈ ہوئے اور208 افراد چل بسے۔ پچھلے ایک سال کے دوران 18,245 کیس عیاں ہوئے جبکہ 919 مریض چل بسے۔ ڈیٹا سے آشکارا ہے کہ یہ نئی بیماری رفتہ رفتہ زیادہ جان لیوا بن رہی ہے۔

وائرس کا طریقہ واردات
مونکی پوکس وائرس کھلی ہوا میں پندرہ دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اس دوران وہ انسان کے ہاتھوں پر لگ جائے تو منہ، کان یا ناک کے راستے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ مریض اگر چھینک مارے تو تب بھی لعاب دہن میں شامل مونکی پاکس وائرس ہوا میں سفر کرتے صحت مند انسان کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ حتی کہ اگر مریض کے قریب ہو کر باتیں کی جائیں تب بھی اس کے منہ سے نکلتے آبی بخارات میں موجود مونکی پاکس وائرس، سننے والے تندرست کے جسم کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ جلد میں زخم ہے تو اس کے راستے بھی وائرس جسم میں جا سکتا ہے۔ جنسی تعلق بھی سبب بنتا ہے۔

ماہرین کے نزدیک مونکی پوکس وائرس سب سے زیادہ متاثرہ جلد کے ذریعے پھیلتا ہے۔ وجہ یہ کہ مریض کی جلد پر یہ وائرس تین ہفتوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔ لہذا مریض کو کوارنٹین میں رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ کسی اور کو یہ وائرس منتقل نہ کر سکے۔ مریض سے ملنے جلنے والوں کو بھی بہت احتیاط کرنا چاہیے۔ مریض کے کپڑے، تولیے، برتن، بستر کی چادریں اور استعمال کی دیگر اشیا الگ رکھی جائیں۔ یہ سبھی اشیا دیگر انسانوں میں مونکی پوکس وائرس منتقل کرتی ہیں۔ مزید براں مریض کے چھالے ڈھانک کر رکھیے تاکہ وہ پھیلنے نہ پائیں۔

علامات
خدانخواستہ یہ وائرس جسم میں داخل ہو جائے تو یہ انسانی خلیوں پہ دھاوا بولتا اور ان کی مشینری ہائی جیک کر کے اپنی نقول بنانے لگتا ہے۔ جب اربوں وائرس پیدا ہو جائیں تو وہ خون کے ذریعے پورے جسم میں پھیل کر انسان کو بیمار کرنے لگتے ہیں۔ پہلے انسان بخار، سر درد اور تھکن کا شکار ہو تا ہے۔ گلا سوج جانے سے تکلیف ہوتی ہے۔ عضلات میں بھی درد ہونے لگتا ہے۔ جسم پر خارش بھی ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ جسم کے مختلف مقامات پر آبلے نمودار ہو جاتے ہیں۔

یہ علامات ایک سے تیس دن کے اندر پیدا ہوتی ہیں۔ بچے، بوڑھے، خواتین اور کمزور مدافعتی نظام والے خصوصاً مونکی پاکس وائرس کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایم پاکس بیماری عموماً اپنی علامات ظاہر کر کے بتدریج ختم ہو جاتی ہے۔ مگر اس کا علاج نہ ہو یا مریض کمزور مدافعتی نظام رکھتا ہے تو وہ بڑھ کر کئی طبی پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے اور انہی کی وجہ سے آخر انسان چل بستا ہے۔

علاج
مونکی پاکس وائرس سے جنم لینے والی چھوتی بیماری اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اب تک اس کی موثر دوا دریافت نہیں سکی۔ اسی لیے عموماً مریض کو کوارنٹین میں رکھ کر ہی علاج کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔انسان کا مدافعتی نظام مضبوط ہو تو وہ دو تین ہفتے میں صحت یاب ہو جاتا ہے۔مرض کی شدت بڑھ جائے تو مریض کو اینٹی وائرل دوا دی جاتی ہے۔

بچاؤ
مونکی پاکس وائرس اور چیچک پیدا کرنے والا وائرس قریبی رشتے دار ہیں۔ اسی لیے ایم پاکس سے بچاؤ کے لیے افریقہ میں چیچک کی ویکسین دینا معمول ہے۔ مگر یہ ویکسین کافی مہنگی ہے، اس لیے صرف مالدار افریقی ہی عموماً اس کا استعمال کر پاتے ہیں۔ اب عالمی سماجی تنظیمیں کوشش کر رہی ہیں کہ ویکسینیں خرید کر افریقی ممالک میں تقسیم کی جائیں تاکہ عام آدمی بھی انھیں استعمال کر کے ایم پاکس سے محفوظ ہو سکے۔

وائرس کی نئی اقسام
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر وائرس کی طرح مونکی پاکس وائرس بھی اپنی جینیاتی مشینری میں مسلسل تبدیلیاں پیدا کرتا رہتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اپنی بقا اور پھیلاؤ کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہی وجہ ہے، ہر سال اس کی نئی اقسام (strain) سامنے آ جاتی ہیں۔

ان اقسام پہ پرانی ویکسین زیادہ اثرانداز نہیں ہوتی، یوں اس کی اہمیت گھٹ جاتی ہے۔ ویکسین بنانے پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کم ہی طبی کمپنیاں ویکسینیں بناتی ہیں کیونکہ جلد وائرسوں کی نئی اقسام انھیں بے فائدہ کر ڈالتی ہیں۔ مگر ویکسینوں کا موثر علاج نہ ہونے سے ایم پاکس اور دیگر امراض ِ حیوانی پیدا کرنے والے نامیات کو موقع مل رہا ہے کہ وہ انسانی آبادی میں پھیل کر زیادہ سے زیادہ انسانوں کی زندگیاں اجاڑ سکیں۔

محفوظ رہنے کے طریقے
مونکی پاکس اور دیگر وائرسوں و جراثیم کو دور رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ دن میں وقفے وقفے سے صابن سے ہاتھ دھوئیے۔ دھونے کا دورانیہ کم از کم بیس سیکنڈ ہونا چاہیے۔ مرد و زن کے زیادہ قریب ہو کر باتیں مت کیجیے کیونکہ دوران گفتگو منہ سے آبی بخارات نکلتے ہیں جو ہمیں دکھائی تو نہیں دیتے مگر ان میں وائرس وغیرہ موجود ہو سکتے ہیں۔ مذید براں جانوروں سے کم سے کم تعلق رکھیے۔ گوشت اچھی طرح پکائیے تاکہ اس میں خطرناک نامیات موجود ہوں تو وہ ہلاک ہو جائیں۔ بہتر ہے کہ ماسک پہن کر عوامی مقامات میں جائیں۔ نیز ایسی غذائیں استعمال کیجیے جو مدافعتی جسمانی نظام مضبوط بناتی ہیں۔ احتیاطی تدابیر اپنا کر آپ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں محفوظ کر سکتے ہیں۔

نوٹ: صحت سے متعلق یہ مضمون غیرملکی نیوز ویب سائٹ میں شائع کیا گیا، جسے سید عاصم محمود نے تحریر کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں