بڑی خبر: بلڈوزر راج پر سپریم کورٹ کا ہتھوڑا، ملک بھر میں بلڈوزر کاروائیوں پر روک لگی، جمعیۃ علماء کی عرضی پر عدالت عظمیٰ کا تاریخی فیصلہ، ظالمانہ کاروائیوں کی حمایت کرنے والوں کے منہ پر زوردار طمانچہ

ایک اہم فیصلے میں، سپریم کورٹ نے 17 ستمبر کو ملک بھر میں بلڈوزر کاروائیوں پر روک لگادی۔ ملک کی اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ ’جت تک عدالت سے پیشگی اجازت نہ لی جائے، بلڈوزر کاروائی نہیں کی جاسکتی‘۔

عدالت نے واضح کیا کہ یہ حکم عوامی سڑکوں، فٹ پاتھوں، ریلوے لائنوں، واٹر باڈیز پر تجاوزات پر لاگو نہیں ہوگا۔ اس معاملہ میں اب اگلی سماعت یکم اکتوبر کو ہوگی۔

فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس بی آر گاوائی اور کے وی وشواناتھن نے کہا کہ ’اس طرح کی کاروائی ہمارے آئینی اخلاق کے خلاف ہے‘۔ جب سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت عظمیٰ کے اس حکم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قانونی حکام کے ہاتھ باندھنے کے مماثل ہے‘۔ جس پر سپریم کورٹ نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر انہدام کا کام ایک ہفتہ کےلئے روکا گیا تو کوئی آسمان نہیں گرے گا‘۔

دراصل جمعیۃ علماء ہند نے ملک بھر میں بلڈوزر کے ذریعہ کی جارہی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ جمعیۃ علماء کی طرف سے دائر درخواست پر سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اپریل 2022 میں فسادات کے فوراً بعد دہلی کے جہانگیر پوری میں لوگوں کے کئی مکانات اس الزام پر گرائے گئے کہ انھوں نے فسادات بھڑکائے تھے۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ حکام سزا کے طور پر بلڈوزر کارروائی کا سہارا نہیں لے سکتے اور اس طرح کی مسماری سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ہر شہری کو حاصل ہے۔ جمعیۃ نے منہدم مکانات کی تعمیر نو کا حکم دینے کی بھی گذارش کی تھی۔
اپ ڈیٹ جاری ہے۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں