حیدرآباد (دکن فائلز) ‘بلڈوزر جسٹس’ پر سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے بلڈوزر کے ذریعہ فوری طور پر جائیدادوں کو مسمار کرنے سے متعلق رہنما خطوط وضع کیے جو پورے ہندوستان کےلئے لاگو ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے سخت رخ اپناتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو جج نہیں بن سکتا، کسی ملزم کو مجرم قرار نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس کا گھر گرا سکتا ہے۔
تاریخی فیصلہ جمعیۃ علما ہند کی طرف سے دائر کردہ ایک درخواست پر آیا جس میں ریاستی حکومتوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر بلڈوزر کارروائیاں کرنے پر اعتراض جتایا گیا تھا۔ صدر جمعیۃ علما ہند مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس فیصلے سے بلڈوزر کارروائیوں پر لگام لگے گی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ بلڈوزر چلا کر کسی کا گھر توڑنا جرم کی سزا نہیں ہے۔ حکومت جج بن کرملزم کے گھر کو بلڈوز نہیں کرسکتی۔ جسٹس بی آر گاوائی اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے کہا کہ لوگوں کے مکانات محض اس لیے منہدم نہیں کئے جاسکتے ہیں کہ وہ ملزم ہیں یا مجرم ہیں۔ فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس گوائی نے کہا کہ راتوں رات سڑکوں پر خواتین اور بچوں کو دیکھنا خوش کن منظر نہیں ہے۔ عدالت نے ریاستی حکومتوں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال پر روک لگا دی۔
سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک کوئی شخص مجرم ثابت نہ ہو جائے، اس کی جائیداد کو صرف الزام کی بنیاد پر تباہ کرنا غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومتوں اور ان کے اہلکاروں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی فرد کو مجرم قرار دے کر اس کی جائیداد تباہ کریں۔
بنچ نے ہدایت دی کہ پیشگی وجہ بتاو نوٹس کے بغیر اور نوٹس جاری ہونے کی تاریخ سے 15 دن کے اندر کوئی انہدام نہ کیا جائے اور انہدام کی کارروائی کی ویڈیو گرافی کی جائے۔ بنچ نے واضح کیا کہ اگر سرکاری اراضی پر غیر مجاز تعمیرات ہو یا عدالت کی طرف سے مسمار کرنے کا حکم ہو تو یہ ہدایات لاگو نہیں ہوں گی۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ آئین اور فوجداری قانون کی روشنی میں ملزمان اور مجرموں کو کچھ حقوق اور تحفظات حاصل ہیں۔