جماعت اسلامی ہند کے قومی اجتماع میں ملک میں فرقہ پرستی اور غزہ جنگ سے متعلق قراردادیں منظور کی گئیں

حیدرآباد : کل ہند اجتماع ارکان ، جماعت اسلامی ہند کے آخری دن اہم ملی، ملکی اور عالمی مسائل پر قراردادیں منظور کی گئی ، اجتماع کی کامیاب تکمیل پر شہر حیدراباد میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی ، نائب امرائے جماعت پروفیسر سلیم انجینیر ‘ ملک معتصم خان قیم جماعت ٹی۔عارف علی نے اجلاس میں منظور شدہ قراردادوں کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کی ۔

1) جماعت اسلامی ہندکے ارکان  کا یہ کل ہند اجتماع اس بات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں نے ملک عزیز میں مسلمانان ہند کے لیے حالات مشکل سے مشکل تر کردیے ہیں۔  ۔ ان کے متعدد ادارے، عبادت گاہیں، املاک اور افراد قانونی پیچیدگیوں اور کبھی کبھار غیر قانونی کارروائیوں اور تشدد کے ذریعے نشانہ بنائے جارہے ہیں، عدالتی کارروائیوں کی سست رفتاری انصاف اور قانون کی بالادستی پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہے۔ ۔بلڈوزنگ کے خلاف سپریم کورٹ کی واضح  ہدایات کے باوجود مختلف  حکومتیں  بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر منصفانہ انہدامات  جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو پوری قوت سے دبایا جا رہا ہے۔ یہ اجلاس اس صورتحال کو نہ صرف مسلمانوں کے لیے  بلکہ پورے ملک کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھتا ہے، اور آگاہ کرتا ہے کہ نفرت کے اس طوفان کو روکا نہ جائے  تو یہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

یہ اجلاس نئے وقف بل کو مسترد کرتا ہے ۔ یہ خوش آئند پہلو ہے کہ مسلمانوں نے وقف بل کی خامیوں اور اس سے ہونے والے بڑے نقصانات کو عوام پر اچھی طرح واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ جماعت نے بھی پوری وضاحت کے ساتھ جے پی سی ( JPC ) کے سامنے اپنا موقف رکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے ہے کہ اس بل کو عوامی خواہشات کا خیال رکھتے ہوئے یکسر مسترد کردیا جائے۔ یہ اجلاس اس مطالبے کی پرزور تائید کرتا ہے۔

یہ بات باعث مسرت ہے کہ وطن عزیز میں کئی اہل حق اور انصاف کے علمبردارافراد مظلوموں کے حق میں کھڑے ہیں، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ افراد اپنی جان و مال کو جوکھم میں ڈال کر حق کی حمایت کر رہے ہیں، جن میں کئی خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانیت کا جوہر اور ہمارے ملک کا عظیم سرمایہ ہیں۔ یہ اجلاس ان سب حامیان حق اور ان کی جدو جہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ برادران وطن سے اور ان کے با اثر افراد سے ہر سطح پر اپنے روابط اور تعلقات کو مستحکم اور وسیع کرنے  اور باہمی اعتماد، محبت اور تعاون کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں کو مزید تیز کریں۔

مسلمانانِ ہند کو یہ اجلاس  یاد دہانی کرانا چاہتا ہے کہ  ان حالات  میں ان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ  وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہیں، خدا پر بھروسہ رکھیں اور مایوسی کو قریب نہ آنے دیں۔ اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی پیدا کریں اور انفرادی و اجتماعی طور پر دین اسلام کی صحیح ترجمانی کریں۔عدل و قسط کے قیام کی کوشش اور  کمزور اور مظلوم طبقات کے حقوق اور ان کی انسانی عظمت کے لئے جدوجہد ان کا مذہبی فریضہ ہے۔اس فریضے کی ادائیگی پر توجہ دیں۔شرپسندوں کی اشتعال انگیزحرکتوں پرمنفی ردعمل کا شکار ہونے کے بجائے حوصلہ و ہمت اور داعیانہ اخلاق و کردار کے ساتھ، حالات کو بدلنے کے لئے سماجی، سیاسی اور عدالتی میدانوں میں منصوبہ بند کوشش کرتے رہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان حالات میں بھی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہیں اور اس  امر کویقینی بنائیں کہ یہ وقتی حالات انہیں ان کے اصل مقصد اور ذمہ داریوں سے غافل نہ کر سکیں۔

یہ اجلاس مسلمانان ہند کو اس اہم فریضے کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے  کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پروپیگندے کو روکنے کے لیے  وہ  ،بڑے پیمانے پر برادران وطن تک اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں صحیح اور مستند معلومات پہنچانے کی  اور رائے عامہ کو مثبت رخ پر بدلنے  کی منصوبہ بند جدوجہد کریں۔

2) ارکان جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس  یہ محسوس کرتا ہے کہ ہمارے ملک کو اس وقت آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے بے شمار مواقع دستیا ب ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی، نوجوانوں کی فعال افرادی قوت، سائنس و ٹکنالوجی خصوصاً انفارمیشن و کمیونکیشن ٹکنالوجی میں تیز رفتار ترقی،جمہوری اور فلاحی ریاست کا واضح تصور دینے والا دستور، مختلف تہذیبو ں ، زبانوں اورمذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی موجودگی اور ان کے درمیان صدیوں سے خوش گوار تعلقات، یہ سب وہ مواقع ہیں جو ملک عزیز کے لیے قیمتی اثاثوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن  بدقسمتی سے یہاں متعدد ایسے مہلک رجحانات پیدا ہوگئے ہیں جو ہمارے پیروں کی بیڑیاں بن چکے ہیں۔

اجلاس کااحساس ہے کہ فرقہ وارانہ جارحیت، نسل پرستی، تعصب، ظلم و استحصال اور کرپشن نے ملک کی پر امن فضا کو مکدر کر دیا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں  کے سبب معاشی نابرابری بڑھتی جا رہی ہے، اور ملک کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ عوام کی اکثریت غریب سے غریب تر ہوکر بے شمار مسائل کی شکار بنتی جارہی ہے۔ ملک کے آئینی ادارے زوال پذیر ہیں، اور بڑی تیزی کے ساتھ جمہوری قدریں مٹتی جارہی ہیں ، جس کے نتیجے میں مطلق العنانی اور خودمختار طرز حکمرانی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا اور تعلیمی نظام بھی انتہا پسند فرقہ واریت کی زد میں ہیں، جن سے عوام میں تعصبات فروغ پارہے ہیں  اور ذہنی و علمی ارتقا میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ یہ اجلاس تمام باشندگانِ ملک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ سماج میں نفرت کے ایجنڈے کو روکنے کی متحدہ کوششیں کریں اور معاشرے میں تقسیم اور پولرائزیشن ( Polarization ) کو ختم کرنے کے لیے متحد ہوں۔ظلم و استحصال، ناانصافیاں و نابرابریاں اور کرپشن  و اخلاقی بحران، اس ملک کے اصل مسائل ہیں۔ اجلاس اہل ملک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ذات پات اورفرقہ ومذہب کی بنیادوں پر انہیں تقسیم کرنے کی کوششوں کو ناکام بناکر ان حقیقی مسائل کے  حل کے لیے متحدہ جدوجہد کریں۔دوسری جانب ملک میں اخلاقی بحران ایک سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں بچا جہاں خواتین کی عزت و عصمت محفوظ ہو۔ مجرموں کو شاذ و نادر ہی سزا ملتی ہے، یہ طرزِ عمل نہ صرف انصاف کی توہین ہے بلکہ دوسرے مجرموں یا ممکنہ بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرہ بدترین اخلاقی پستی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جہاں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا کے بجائے عزت بخشی جا رہی ہے،یہ ہمارے لیے ایک تشویشناک امر ہے اور ملک کی مجموعی اخلاقی و معاشرتی صورت حال پر گہرے منفی اثرات ڈال رہا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس اس سنگین صورت حال کو ملک کی سا لمیت کے لئے انتہائی خطرناک سمجھتا ہےاورحکومت کے سربراہوں اور قانون کے محافظوں سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ  اپنے سیاسی مفادات اور تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنی ذمہ داریاں اداکریں، آئینی اداروں کی بقا اور ملک میں امن و انصاف کی فضا بحال کرنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ یہ اجلاس مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے ادا کریں۔ نفرت پھیلانے والوں اور سماج میں بد امنی پیدا کرنے والے، چاہے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، ان پر فوری اور قانون کے مطابق کاررروائی کی جائے ۔

3) ارکان جماعت کے اس اجلاس کو اس بات پر بڑی تشویش ہے کہ گزشتہ سال غزہ سے شروع ہونے والی جنگ اب لبنان اور ایران تک پھیل چکی ہے، اور اس پورےخطے پر جنگ کے  مہیب بادل منڈلارہے ہیں ۔ یہ اجلاس اسرائیل اور اس کی پشت پناہ طاقتوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ فلسطین میں جاری  وحشیانہ نسل کشی بلاشبہ حالیہ تاریخ میں انسانیت کے خلاف سب سے سنگین اور بدترین جرم ہے۔ اجلاسں خبردار کرتا ہے کہ ظلم و ستم کا انجام ہمیشہ رسوائی اور شکست ہوتا ہے۔  اس وحشت و بربریت  کے خلاف فلسطین اور خصوصا غزہ  کے بہادر  عوام نے جس بہادری اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، اجلاس  اسے  خوش آئند سمجھتا ہے۔ اس حوصلے و استقامت نے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ دنیا بھر میں انصاف پسند افراد اور اداروں کو متوجہ کیا ہے اور عالمی رائے عامہ میں ایک مثبت تبدیلی پیدا کی ہے جس کا ایک اہم مظہر  عالمی عدالت انصاف کا وہ تاریخی فیصلہ ہے جس میں اس نے اسرائیل کو غاصب اور نسل پرست ریاست قرار دیا ہے اورجس کی  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اکثریت نے بھی حمایت کی ہے۔ اجلاس فلسطین کے عوام کو اس استقامت اور حوصلے کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہے اور ان کی کام یابی کے لیے دعا کرتا ہے۔

اجلاس اہل ملک کو اور ہماری حکومت کا یہ یاد دلانا چاہتا ہے کہ  فلسطینیوں کے جائز حقوق کی حمایت بھارت کا تاریخی موقف رہا ہے۔ یہ موقف دستور ہند کی رہنمائی  کےمطابق اور ان اصولوں سے ہم آہنگ رہا ہے جو ہماری جدوجہد آزادی کی اساس رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انصاف کا ساتھ دیتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت میں اور زیادہ پر زور آواز اٹھائے ، غزہ میں نسل کشی کو ختم کرنے میں فعال کردار ادا کرے۔اجلاس یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی فوجی مدد اور اسے ہتھیاروں کی فروخت ، ہمارے دیرینہ استعمار مخالف موقف کی صریح خلاف ورزی ہے اس لیے اسے فوری روکا جائے۔

پچھلے تین برسوں سے جاری روس اور یوکرین کی جنگ اور وسط ایشیا کی حالیہ کشیدگی سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ جنگیں  محض سیاسی نہیں بلکہ سنگین معاشی مفادات سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہتھیار ساز کمپنیاں اپنے مفادات  کے لئے حکومتوں کی خارجہ پالیسیوں پر اثرانداز ہو کر جنگوں کو ہوا دے رہی ہیں۔ یہ صورتحال عالمی امن کے لئے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔

یہ اجلاس بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں سے پر زور اپیل کرتا ہے کہ وہ سیاسی و معاشی مفادات کو بالائے طاق رکھ  کر نسل انسانی اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں، جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاکر انہیں سزائیں دیں اور عالمی سطح پر قیام امن اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس مسلم ممالک کے حکمرانوں سے بطور خاص اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلامی اخوت اور آخرت کے محاسبے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کی عملی مدد کے لئے آگے بڑھیں۔ ان کی انسانی اور دینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں مظلوم اقوام کے حق میں آواز بلند کریں اور ظالموں کے خلاف عالمی رائے عامہ کو بیدار کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں