عدالتی تحقیقاتی کمیشن نے سنبھل جامع مسجد کا دورہ کیا، اترپردیش حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار

حیدرآباد (دکن فائلز) اترپردیش کے سنبھل میں سخت سیکوریٹی کے بیچ اتوار کے روز تین رکنی عدالتی تحقیقاتی کمیشن نے شاہی جامع مسجد علاقہ کا دورہ کیا۔ کمیشن نے 24 نومبر کو بھڑکے تشدد کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ جوڈیشل انکوائری کمیٹی کے دو ارکان نے تشدد سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا۔ ٹیم شاہی جامع مسجد بھی گئی۔ حکام نے تحقیقاتی کمیٹی کو واقعہ کے دن کی صورتحال سے واقف کروایا۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کمیشن کے ارکان دوبارہ علاقہ کا دورہ کریں گے۔

واضح رہے کہ جامع مسجد کمیٹی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور گذشتہ جمعہ کو اس معاملہ پر عدالت عظمیٰ میں معاملہ کی سماعت کی گئی تاہم اس سے صرف چند گھنٹے قبل اترپردیش حکومت نے اناً فاناً میں ایک تین رکنی عدالتی تحقیقات کمیشن تشکیل دیکر سنبھل تشدد کی عدالتی جانچ کا حکم دیا۔

اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤ نے عدالتی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل سے تعلق حکومت کے اعلان پر اپنے گہرے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ شیو پال یادو نے حکومت کی طرف سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ سنبھل واقعہ پر انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی جانب سے کیا گیا، تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست کئے جائیں۔ بی جے پی حکومت مجرموں کو تحفظ دے کر فسادات کر رہی ہے۔ صبح سے شام تک جھوٹ بولا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برسرخدمت جج کے ذریعہ معاملہ کی تحقیقات کی جانی چاہئے۔

حکومت کی جانب سے اناً فاناً میں عدالتی تحقیقات کمیشن تشکیل دینے کو عوام شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج دیویندر کمار اروڑہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر امیت موہن پرساد، جنہوں نے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے ماتحت کام کیا اور ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر اروند کمار جین، جو 2015 میں پولیس کے ڈائریکٹر جنرل تھے کمیشن میں شامل ہیں۔

تشدد میں پانچ مسلمان مارے گئے حالانکہ حکومت نے صرف چار افراد کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔ متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے اور کچھ گاڑیوں کو نذر آتش یا نقصان پہنچایا گیا۔ حکومت نے جوڈیشل کمیشن کو صرف چار امور پر تحقیقات کرنے کو کہا ہے۔ ایک، یہ دریافت کرنا کہ آیا یہ واقعہ “اچانک یا منصوبہ بند اور مجرمانہ سازش کا نتیجہ تھا۔” دو، واقعہ کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کیے گئے انتظامات کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا۔ تین، ان “وجوہات اور حالات” کا پتہ لگانے کے لیے جن کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ اور چار، ایسے واقعات کے اعادہ کو روکنے کے لیے تجاویز فراہم کرنا۔ کمیشن کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیشن کی جانب سے مسلم نوجوانوں کی اموات، پولیس پر لوگوں کو بھڑکانے کے الزامات اور سروے کے دوران ہندو فریق کی جانب سے کی گئی نعرے بازی و لوگوں کو مشتعل کرنے سے متعلق الزامات کی جانچ نہیں کی جائے گی۔ لوگوں نے کمیشن کی تشکیل پر حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کو تمام معاملہ کی انتہائی غیرجانبداری سے جانچ کرنی چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں