بڑی خبر : سنبھل جامع مسجد کنویں پر سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ! جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کی ہدایت، مسجد کو مندر ظاہر کرنے پر شدید اعتراض، مسجد کمیٹی کے وکیل کی مدلل بحث

حیدرآباد (دکن فائلز) سپریم کورٹ نے آج سنبھل کی جامع مسجد انتظامی کمیٹی کی جانب سے داخل کی گئی عرضی پر نوٹس جاری کرکے مسجد کے قریب واقع ایک کنویں پر جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کی ہدایت دی اور حکام کو دو ہفتوں کے اندر اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کو کہا۔ مسجد کمیٹی نے عرضی میں دعویٰ کیا تھا کہ کنویں کو ہندوؤں کی جانب سے ‘سری ہری مندر’ قراردیتے ہوئے یہاں پوجا کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔

آج یہ معاملہ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی قیادت میں جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ کے سامنے آیا جس میں مسجد کمیٹی نے دلیل دی کہ ہندو یہاں پوجا کرنے کےلئے کنویں کو کھولنا چاہتے ہیں جس سے علاقہ میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے، اسی علاقہ میں گذشتہ سال نومبر میں جامع مسجد سنبھل کے سروے کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا اور اس دوران فائرنگ میں 5 مسلم نوجوانوں جاں بحق ہوگئے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ کنواں مسجد کے احاطہ میں واقع ہے اور اس کا آدھا حصہ مسجد کے اندر ہے اور باقی آدھا مسجد کے باہری حصہ میں ہے۔ یہ کنواں تین تنگ گلیوں کے سہ رخی جنکشن پر واقع ہے جو مسجد کے مرکزی دروازے کی طرف جاتے ہیں اور اس کنواں کا پانی مسجد کے استعمال ہوتا ہے جس سے وضو بھی کیا جاتا ہے۔

مسجد کمیٹی نے بتایا کہ سنبھل انتظامیہ علاقہ کے تمام کنوؤں کو مذہبی قرار دینے کی کوشش کررہا ہے۔ عرضی میں کہا گیا کہ ’’سنبھل کے ارد گرد اور مسجد کے قریب پوسٹر لگائے گئے ہیں، جس میں مبینہ طور پر کنوؤں کے مقام کی نشاندہی کی گئی ہےاور حد تو یہ ہے کہ اس پوسٹر میں تاریخی مسجد کو مندر کے طور پر دکھایا گیا ہے‘‘۔

عرضی میں عدالت عظمیٰ پر زور دیا گیا کہ وہ ضلع مجسٹریٹ، سنبھل کو ایک مناسب ہدایت جاری کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مسجد کی سیڑھیوں/داخلی دروازے کے قریب واقع کنویں کے حوالے سے جوں کی توں کو برقرار رکھا جائے اور اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی قدم/کارروائی نہ کی جائے۔

جمعہ کو سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے مسجد کمیٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے نگر پالیکا کی طرف سے کنویں کے متعلق لگائے گئے پوسٹروں کا حوالہ دیا۔ احمدی نے کنویں کی تاریخی اہمیت پر زور دیا اور مزید کہاکہ “ہم زمانہ قدیم سے کنویں سے پانی نکالتے رہے ہیں”۔ احمدی نے اس جگہ کو “ہری مندر” کے نام سے منسوب کرتے ہوئے لگائے جانے والے پوسٹرز اور وہاں مذہبی سرگرمیاں شروع کرنے کے منصوبوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

بنچ کے سامنے دلیل دی گئی کہ کنویں کا آدھا حصہ اندر اور آدھا باہر ہے۔ وکیل نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستی حکومت متعصبانہ موقف اختیار کر رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سنبھل شاہی جامع مسجد کمیٹی کی عرضی پر اتر پردیش حکومت کو نوٹس جاری کیا اور 21 فروری 2025 تک اس سے جواب طلب کیا۔ بنچ نے کہا کہ کنویں کا جوں کا توں موقف برقرار رکھا جانا چاہیے۔ بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ کنویں سے متعلق کوئی بھی پبلک نوٹس نہیں دیا جانا چاہئے۔

ہندو فریق کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین نے کہا کہ کنواں مسجد کے دائرہ سے باہر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کنواں تاریخی طور پر عبادت کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اتر پردیش حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس جگہ کے آس پاس کی صورتحال پرامن ہے لیکن درخواست گزار نے مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں