حیدرآباد (دکن فائلز) ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔ چھتیس گڑھ کے امبیکا پور قصبہ میں حکام نے جنگل کی زمین بتاکر مسلمانوں کے 60 گھروں کو مسمار کردیا۔ انقلاب کی رپورٹ کے مطابق جنگل کی زمین پر بسنے کا حوالہ دیتے ہوئے محض مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا۔ مقامی لوگوں نے انتظامیہ پر صرف مسلمانوں کے گھروں کو ہی چن چن کر نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جبکہ دیگر مذاہب کے خاندانوں کے گھروں کو چھوا تک نہیں گیا۔
سرکاری حکام نے جنگلاتی اراضی پر ناجائز تجاوزات تو قرار دیا لیکن صرف خاص مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ہی نشانہ بنانے کے معاملہ میں میں خاموش رہے اور انہوں نے اس طرح کے الزامات کی تردید کردی۔ مقامی شخص غلام مصطفیٰ نے مکتوب میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ علاقہ میں تقریباً 200 مکانات ہیں لیکن صرف مسلمانوں کے گھروں کو ہی چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔
انتظامیہ کی جانب سے جمعہ کی شام 60 گھروں کو نوٹس بھیجا گیا، جس کے بعد ہم نے ہائیکورٹ کا رخ کیا لیکن ہمیں پیر تک بھی اسٹے نہیں مل سکا۔
وزیر جنگلات کیدار کشیپ نے تین روز قبل علاقہ کا دورہ کیا تھا جس کے بعد بلڈوزر کاروائی کی گئی۔ 2018 میں بھی علاقہ کے رہائشیوں کو روہنگیا بتاکر ان کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ علاقہ میں دلتوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی خاصی تعداد آباد ہے لیکن صرف مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔
ویڈیو دیکھنے کےلئے لنک پر کلک کریں:
https://x.com/i/status/1881657020270657863
مقامی مسلم تنظیم رضا یونٹی فاؤنڈیشن نے سرگوجا کلکٹر کو ایک میمورنڈم پیش کیا، جس میں بچوں، بوڑھوں اور خواتین سمیت بے گھر لوگوں کیلئے پناہ، خوراک، پانی اور ادویات کے عارضی انتظامات کا مطالبہ کیا گیا۔مقامی مسلم لیڈر تسلیم نے سوال کیا کہ بلڈوزر کاروائی میں مکانات کو خاص ترتیب سے کیوں نہیں گرایا گیا۔ انتظامیہ نے صرف علاقے کے وسط میں مسماری مہم کیوں شروع کی؟
ویڈیو دیکھنے کےلئے لنک پر کلک کریں:
https://x.com/i/status/1882146649549763024
واضح رہے کہ ایک پوسٹ میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ریاستی وزیر او پی چوہدری نے دعویٰ کیا کہ علاقے میں رہنے والے لوگ بنگلہ زبان بولتے ہیں۔انہوں نے سابقہ وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل پر بھی خوشامدی سیاست کرنے کا الزام عائد کیا۔