المعہد العالی الاسلامی کے سالانہ اجلاس میں اہم دینی و فکری موضوعات پر شہر و بیرون کے علمائے کرام کے خطابات، طلبہ میں تقسیم اسناد اور فضلامعہد کی کتابوں کی رسم اجرا ء انجام دی گئی

حیدرآباد (پریس ریلیز) المعہدالعالی الاسلامی نے مختصر عرصہ میںجس قدر دینی ،علمی اورفکری خدمات انجام دی ہیں،وہ قابل فخر ہےمعہد کے جلسۂ سالانہ کے تمام مقررین نے معہد کے اس امتیاز کا اعتراف کیاہے، المہعدالعالی الاسلامی میں آج سالانہ جلسہ کا انعقاد ہوا، اس موقع پرفضلاء معہد کے سال دوم کے مقالے جو علمی وفکری موضوعات پر تھے، زیورطبع سے آراستہ ہونے پر ان کی رسم اجراء انجام دی گئی،معہد کے گزشتہ سال کے سال اول کے طلبہ، امسال کے سال دوم کے طلبہ اورمدرسہ عبداللہ بن مسعود کے طلبہ میں اسناد کی تقسیم عمل میں آئی، تلاوت کلام پاک اورنعت شریف کے بعد معہد کے نائب ناظم مولانا عمرعابدین قاسمی مدنی صاحب نے جلسہ کی نظامت کرتے ہوئے معہد کا تعارف پیش کیا اورمعہد کی حصولیابیوں سے حاضرین کو واقف کرایا۔

اجلاس سے حضرت مولانا امیر اللہ خان صاحب نے ’’مساجد کی امامت وخطابت اور فضلاء مدارس کی ذمہ داریاں‘‘کے اہم عنوان سے خطاب کیا اور طلبہ معہد کو ان کی گراں قدر ذمہ داری کا احساس دلایا،حضرت مولانا عبدالرحمن اطہر ندوی صاحب نے ’’مکاتب کا قیام ونظام اورفضلاء مدارس کی ذمہ داریاں‘‘کے عنوان سے خطاب کیا اور طلبہ کو مکاتب کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہوئے مکاتب کے نظام کو ہرجگہ قائم کرنے کی دعوت دی،اسی کے ساتھ انہوںنے اسکول قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی اوراس کو وقت کی ایک اہم ضرورت بتایا، محترم جناب اقبال احمد انجینئرصاحب نے ’’ملک کے موجودہ حالات اوردینی مدارس‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے موجودہ حالات کی تصویرکشی کی اورکہاکہ عدالتوںپر مسلمانوں کا بھروسہ تھا اورجمہوریت پر ان کا اعتماد تھا لیکن کچھ عرصہ سے ایسے فیصلے آرہے ہیں اورحکومت اکثریت کے نشے میں چورہوکر ایسے اقدامات کررہی ہے جس سے عدالت اورجمہوریت دونوں پر اعتماد ڈگمگارہاہے۔

ان مقررین حضرات کے خطاب کے بعد معہد کے چھ فضلاء کی کتابوں کی رسم اجراء  انجام دی گئیں، مولوی ابوالکلام طیب ندوی نے ‘‘حضرت عائشہ کے استدراکات ‘‘کے موضوع پر مقالہ لکھاتھا،جس میں حضرت عائشہ نے صحابہ کرام کی بعض فروگزاشت اورغلط فہمیوں کی اصلاح کی تھی، اس مقالہ میں اس کو تفصیل سے بیان کیاگیا،جس سے حضرت عائشہؓ کا علم وفضل اوران کی ناقدانہ صلاحیت کا اندازہ ہوتاہے،اس کتاب کی رسم اجراءمولانا عبدالرحمن اطہر کے ہاتھوں ہوئی،دوسری کتاب اصول فقہ کے ایک اہم موضوع ’’استحسان، حقیقت اور تطبیقات‘‘کے موضوع پر مولوی حسن ریاض ندوی کی تھی، نئے مسائل کو حل کرنے میں استحسان نہایت اہم ذریعہ ہے، اس مقالہ میں استحسان کی حقیقت اوراس کی تطبیق کی مثالیں بیان کی گئی ہیں،اس کتاب کی رسم اجراء مولانا امیر اللہ خان کے ہاتھوں ہوئی،تیسری کتاب ’’معدنیات کے احکام ومسائل‘‘کے اہم اورانوکھے موضوع پر تھی جس میں زمین پر اورزمین میں موجود معدنیات کے تعلق سے اسلامی و شرعی احکام واضح کیے گئے ہیں۔

یہ مقالہ مولوی حسان رحمانی (گجرات)نے لکھی ہے، اس کتاب کی رسم اجراء مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ہاتھوں انجام پائی،چوتھا مقالہ عصرحاضر کے ایک اہم موضوع’’انشورنس کی مروجہ شکلیں اوران کے شرعی احکام ‘‘پر تھی یہ مقالہ مولوی صفی اللہ فلاحی( گجرات)نے لکھاہے،جس میں تفصیل سے انشورنس کی تاریخ، حقیقت،اس کی شکلیں ،جائز وناجائز کہنے والوں کے دلائل اورآخر میں دلیل کی بنیاد پر عدم جواز کے پہلو کوراجح بتایاگیاہے،اس کتاب کی رسم اجراء مولانا مفتی برکت اللہ قاسمی کے ہاتھوں ہوئی،پانچوں مقالہ ماضی قریب کے مشہور عالم اورمحدث ’’ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظم اوران کی فقہی خدمات‘‘کے موضوع پرتھا،یہ مقالہ مولوی شکیل احمد ندوی نے لکھاہے، حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒمحدث کی حیثیت سے شہرت عام رکھتے ہیں ،لیکن ان کی فقہی خدمات بھی گراں مایہ ہیں، ان کے اسی پہلو پر یہ کتاب لکھی گئی ہے،اس کتاب کی رسم اجراء مولانا عبداللہ معروفی کے ہاتھوں ہوئی،چھٹا مقالہ ماضی قریب کے مشہور عالم، بے باک قائد اور امیر شریعت بہار،اڑیسہ وجھارکھنڈ ’’حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کےفقہی افکار وخدمات ‘‘کے موضوع پرتھا، کیونکہ آپ کی ملی سرگرمیوں پر توبہت کچھ لکھا گیا لیکن ان کی فقہی خدمات ملی سرگرمیوں میں چھپ کر رہ گئیں، یہ مقالہ ان کی فقہی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے لکھی گئی،یہ مقالہ مولوی عتیق اللہ رحمانی نے لکھاہے،اس کتاب کی رسم اجراء مولانا سرفراز احمد قاسمی کے ہاتھوں ہوئی۔

کتابوں کی رسم اجراء کے بعد حضرت مولانا مفتی برکت اللہ قاسمی جو لندن میں شریعہ بورڈ کے مشیر ہیں، انہوںنے ’’فقہ المعاملات کی تفہیم اورعلماء کی ذمہ داریاں ‘‘کے عنوان سے پرمغز اورجامع خطاب کیا،اورطلبہ کو فقہ المعاملات پر توجہ دینےکی تاکید کی، انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دین کابڑا حصہ فقہ المعاملات سے تعلق رکھتاہے، لہذا اس کو نظرانداز کرنا دین کے بڑے حصے کو نظرانداز کرنا ہے، انہوں نے بتایاکہ فقہ المعاملات میں مہارت معاشی آسودگی کے لیے بھی بہتر ذریعہ ہے، دنیا کے ستر سے زائد ملکوں میں اسلامک فائنانس پر کام ہورہاہے، ہندوستان میں بھی حکومت کی مدد اور حمایت کے بغیر اسلامک فائنانس کا کاروبار پروان چڑھ رہاہے، لہذا علماء فقہ المعاملات میں مہارت حاصل کریں اوردین ودنیا کی سرخ روئی حاصل کریں۔

ان کے بعد دیوبند کے شعبہ تخصص فی الحدیث کے سربراہ اور استاذ حدیث حضرت مولانا عبداللہ معروفی صاحب نے ’’فتنہ انکار حدیث اورختم درس بخاری شریف‘‘پر خطاب کیا اور انکار حدیث کی وجہ سے پیداہونے والی فکری گمراہیوں اور فتنوں کی نقاب کشائی کی اورکہاکہ احادیث رسول کے بغیر قرآن کا سمجھنا مشکل ہے اور جس طرح احادیث کے بغیر قرآن کا سمجھنا مشکل ہے، اسی طرح فقہاء امت کی مدد کے بغیر احادیث کا فہم دشوار ہے،لہذا جیسے حدیث سے کٹ کر قرآن کو سمجھنے کی کوشش گمراہی کا ذریعہ ہے،ویسے ہی فقہاء امت سے قطع نظر کرکے احادیث کو سمجھنا ضلالت کاپیش خیمہ ہے،اس کے بعد آپ نے صحیح بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا،اورمدرسہ عبداللہ بن مسعود اورمعہد کے طلبہ کو کتب احادیث کے درس وتددریس کی عام اجازت سے نوازا۔

معہد کے معتمد تعلیم مفتی محمد شاہد علی قاسمی صاحب نےتقسیم اسناد کا اعلان کیا اور طلبہ کے درمیان اکابر علماء کے ہاتھوں سے اسناد کی تقسیم عمل میں آئی،تقسیم اسناد کے بعد صدر اجلاس فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی کو صدارتی خطاب فرمانا تھا ؛لیکن شبنمی رات کی وجہ سے حاضرین کا خیال کرتے ہوئے جس میں ایک بڑی تعداد بڑی عمر کے لوگوں کی تھی، صدارتی خطاب کی جگہ دعافرمائی اور دعا کے بعد جلسہ اختتام پذیرہوا،،اس اجلاس میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شریک تھی،ان کے لیے پردے کا معقول نظم تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں