حیدرآباد (دکن فائلز) ایک مسلم خاتون نے سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لا (شریعت) سے استثنیٰ مانگتے ہوئے عرضی دائر کی جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے مرکز کو نوٹس جاری کرکے اس معاملہ پر جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے منگل کو درخواست پر غور کیا۔ بنچ نے مرکز کو چار ہفتوں کے اندر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔ اس میں معاملہ پر اب آئندہ سماعت 5 مئی کو کی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھا ہے کہ کیا مسلم خاندان میں پیدا ہونے والا شخص وراثت کی تقسیم کے معاملے میں انڈین ایکٹ کی پیروی کرسکتا ہے یا مسلم پرسنل لا شریعت پر چلنے کا پابند رہے گا؟
اس معاملے میں درخواست گزار کیرالہ کی صفیہ پی ایم ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی تمام جائیداد اپنی بیٹی کے لیے چھوڑنا چاہتی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس کا بیٹا آٹسٹک ہے اور اس کی بیٹی اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ شریعت کے تحت اگر والدین کی جائیداد تقسیم ہو تو بیٹے کو بیٹی کا دوگنا حصہ ملتا ہے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ اس کے کیس میں اگر اس کا بیٹا ڈاؤن سنڈروم کی وجہ سے مر جاتا ہے تو اس کی بیٹی کو صرف ایک تہائی جائیداد ملے گی اور باقی کسی رشتہ دار کو دیا جائے گا۔ صفیہ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ وہ اور ان کے شوہر عملی مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ صرف نام کے مسلمان ہیں۔
ذرائع کے مطابق صفیہ نے جان بوجھ کر یہ معاملہ اٹھایا ہے جبکہ اگر وہ چاہے تو اپنی زندگی میں ہی پوری جائیداد اپنی پیٹی کے نام کرسکتی ہیں، اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ شریعت میں اس بات کی اجازت ہے کہ کوئی بھی شخص زندگی میں اپنی جائیداد کسی کو بھی دینے کا اختیار رکھتا ہے۔