اپوزیشن کے شدید احتجاج کے بیچ جگدمبیکا پال نے اسپیکر اوم برلا کو وقف تریمی بل پر حتمی رپورٹ پیش کردی، متنازعہ بل کی لوک سبھا میں شدید مخالفت کرنے اسدالدین اویسی کا اعلان

حیدرآباد (دکن فائلز) وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین اور بی جے پی ایم پی جگدمبیکا پال نے جمعرات کو لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے ملاقات کرکے مجوزہ بل پر اپنی حتمی رپورٹ پیش کردی۔ اپوزیشن ارکان کی مخالفت کے بیچ گذشتہ روز وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے مسودہ رپورٹ اور ترمیم شدہ بل کو منظور کرلیا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے رپورٹ پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے کہاکہ ‘ہم نے رپورٹ اور ترمیم شدہ بل کو منظور کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں پہلی بار ایک شق کو شامل کیا گیا جس میں کہا گیا کہ وقف کے فوائد پسماندہ، غریبوں، خواتین اور یتیموں کو ملنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا، ‘ہمارے پاس 44 شقیں تھیں، جن میں سے 14 میں ارکان نے ترامیم کی تجویز دی تھی۔ ہم نے اکثریتی ووٹوں سے اسے منظور کرلیا اور پھر یہ ترامیم کی گئیں۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی مخالفت کرنا ان کے ڈی این اے میں ہے۔

بی جے پی ایم پی تیجسوی سوریا نے کہا کہ حکومت وقف املاک کے انتظام میں جدیدیت، شفافیت اور جوابدہی لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ نیز مفاد پرستوں کی طرف سے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے جو ملک میں سماجی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی قیمت پر زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وہیں اپوزیشن لیڈروں نے بل کی منظوری پر تنقید کی ہے۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ وہ اس بل کی مخالفت کریں گے جب اس پر بجٹ اجلاس کے دوران لوک سبھا میں بحث ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ رات ہمیں 655 صفحات پر مشتمل رپورٹ کا مسودہ دیا گیا اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی بھی اتنی لمبی رپورٹ پڑھ کر اتنے کم وقت میں اپنی رائے دے سکے۔ اس کے باوجود، ہم نے کوشش کی اور اپنی اختلافی رپورٹ پیش کی۔’

اویسی نے مزید کہاکہ ‘بل، وقف کے حق میں نہیں ہے۔ میں شروع سے کہہ رہا ہوں کہ بی جے پی نے اپنے نظریہ کے مطابق یہ بل مسلمانوں کے خلاف لایا ہے۔ اس کا مقصد وقف بورڈ کو نقصان پہنچانا اور ان کی مساجد پر قبضہ کرنا ہے۔ جب یہ بل پارلیمنٹ میں لایا جائے گا تو ہم وہاں بھی اس کی مخالفت کریں گے۔ اگر ہندو، سکھ اور عیسائی اپنے اپنے بورڈ میں اپنے اپنے مذہب کے ممبر رکھ سکتے ہیں تو مسلم وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبر کیسے ہو سکتے ہیں؟

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کلیان بنرجی نے بھی کہا کہ انہوں نے رپورٹ پر اپنا اختلافی خط پیش کیا ہے۔ شیو سینا (یو بی ٹی) کے رکن پارلیمنٹ اروند ساونت نے کہا کہ انہوں نے اختلافی خط جاری کیا ہے کیونکہ کی گئی ترمیم آئین کے خلاف ہے۔

وقف (ترمیمی) بل پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس 31 جنوری سے شروع ہو کر 4 اپریل تک جاری رہے گا جبکہ مرکزی بجٹ یکم فروری کو پیش کیا جائے گا۔

ملک بھر کے مسلمانوں کی نظریں تلگودیشم اور جنتادل پر ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ دونوں پارٹیاں جو مسلمانوں سے حقیقی ہمدردی کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن وقف ترمیمی بل پر ان کا کیا موقف ہوگا، کیا وہ بی جے پی حکومت کی تائید میں کھڑے ہوں گے یا مسلمانوں کے حق میں وقف بل کی مخالفت کریں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں