اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہیں پروان چڑھی، اردو زبان سے تعصب ٹھیک نہیں! سپریم کورٹ کے تاریخی ریمارکس فرقہ پرستوں کے منہ پر زوردار طمانچہ

حیدرآباد (دکن فائلز) سپریم کورٹ نے ملک کے لسانی تنوع کے احترام کی وکالت کرتے ہوئے مہاراشٹر کی ایک میونسپالٹی کے سائن بورڈ پر اردو تحریر کے خلاف دائر کی گئی عرضی کو مسترد کردیا۔ عدالت عظمیٰ نے بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست کو خارج کر دیا جس میں مہاراشٹر کے ضلع اکولا میں میونسپل کونسل، پتور کی نئی عمارت کے سائن بورڈ پر اردو تحریر کی اجازت دی گئی تھی۔

اطلاعات کے مطابق اردو سے تعصب اور دشمنی رکھنے والے کچھ مفاد پرست و شدت پسند افراد کی جانب سے اکولا میونسپل کونسل کی عمارت کے بورڈ پر اردو تحریر کی شدید مخالفت کرتے ہوئے بمبئی ہائیکورٹ میں 2021 میں عرضی داخل کی تھی تاہم ہائیکورٹ نے بورڈ کو اردو تحریر کرنے کو جائز اور قانون کے مطابق قرار دیا۔ اس کے باوجود اردو سے دشمنی کی انتہا کو پہنچ چکے کچھ شدت پسندوں نے ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اس معاملہ کو لے گئے، جہاں انہیں ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے کہا کہ اردو کے استعمال کا مقصد محض “موثر ابلاغ” ہے اور زبان میں تنوع کا احترام کیا جانا چاہیے۔ فیصلے میں اپیل کی گئی کہ زبان لوگوں میں تقسیم کا باعث نہ بنے۔ زبان خیالات کے تبادلے کا ایک ذریعہ ہے جو متنوع خیالات اور عقائد رکھنے والے لوگوں کو قریب لاتی ہے اور اسے ان کی تقسیم کا سبب نہیں بننا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ آئیے اردو اور ہر زبانوں سے دوستی کریں۔ اردو ہندوستان کے لیے اجنبی نہیں ہے۔ اس کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی اور یہیں پروان چڑھی۔ اردو زبان کے خلاف تعصب ٹھیک نہیں ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ آج بھی ملک کے عام لوگ جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ اردو زبان کے الفاظ سے بھری پڑی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اردو کے الفاظ یا اردو سے ماخوذ الفاظ استعمال کیے بغیر ہندی میں روزانہ کی گفتگو نہیں ہو سکتی۔ لفظ ‘ہندی’ خود فارسی کے لفظ ‘ہندوی’ سے نکلا ہے! الفاظ کا یہ تبادلہ دونوں طرح سے ہوتا ہے کیونکہ اردو میں سنسکرت سمیت دیگر ہندوستانی زبانوں سے بھی بہت سے الفاظ مستعار لیے گئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو الفاظ کا فوجداری اور دیوانی قانون دونوں میں عدالتی گفتگو پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ عدالت سے لیکر حلف نامہ تک، ہندوستانی عدالتوں کی زبان میں اردو کا اثر بہت زیادہ ہے۔ اس معاملے کے لیے، اگرچہ آئین کے آرٹیکل 348 کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی دفتری زبان انگریزی ہے، اس کے باوجود عدالت میں آج تک اردو کے بہت سے الفاظ استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں وکالت نامہ، دستی وغیرہ شامل ہیں۔

معزز جج صاحبان نے مزید کہا کہ زبان مذہب نہیں ہے۔ زبان مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی۔ زبان کا تعلق کسی ایک برادری سے، کسی علاقے سے یا کسی مذہب سے نہیں ہے۔ زبان ثقافت کا حصہ ہے۔ اردو گنگا جمونی تہذیب یا ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں