حیدرآباد (دکن فائلز) ملک بھر میں جہاں ایک طرف مسلمانوں کی جانب سے وقف ترمیمی قانون کے خلاف زبردست احتجاج جاری ہے وہیں دوسری طرف مسلم تنظیموں اور رہنماؤں کی جانب سے وقف ترمیمی قانون کے خلاف قانونی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں آج سپریم کورٹ میں 73 درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی قیادت میں ایک آئینی بنچ جس میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی۔ وشواناتھن نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت شروع کی۔ حذیفہ احمدی، کپل سبل، ابھیشیک منوسنگھوی و دیگر سینئر وکلا نے ایکٹ کے خلاف دلیلوں کے ساتھ بحث میں حصہ لیا۔
درخواست گزاروں نے سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ترمیم شدہ قانون آئین کے آرٹیکل 26 کے تحت محفوظ ضروری مذہبی رسومات میں مداخلت کرتا ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ “اس قانون کی بہت سے دفعات آرٹیکل 26 کی کھلی خلاف ورزی کرتی ہیں۔” انہوں نے دلیل دی کہ ایکٹ کے تحت، وقف کرنے کے لیے، ایک شخص کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پچھلے پانچ سالوں سے اسلام پر عمل کر رہا ہے۔ وقف کرنے سے قبل مجھے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ میں پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہوں، لیکن اگر میں پہلے ہی مسلمان پیدا ہوا ہوں، تو مجھے یہ ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میرے ذاتی مذہبی قوانین خود بخود مجھ پر لاگو ہونے چاہئیں۔
سپریم کورٹ نے وقف بورڈ کی مذہبی ساخت پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے چیف جسٹس آف انڈیا نے سوال کیا کہ ’کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ اب سے آپ مسلمانوں کو ہندو انڈومنٹ بورڈ کا حصہ بننے دیں گے؟ کھل کر بتائیں‘۔ سپریم کورٹ نے بدھ کے روز بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمانوں کو ہندو ٹرسٹ کا حصہ بننے کی اجازت دے گی، کیوں کہ سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی جواز کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ صارف کے ذریعہ وقف کو ختم کرنا ایک مسئلہ ہے، پرانی مسجدوں کو سیل ڈیڈ نہیں ہوگا۔ بنچ نے صارف کے ذریعہ وقف کو ختم کرنے کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے مشاہدہ کیا کہ بہت سی پرانی مسجدیں، خاص طور پر وہ 14ویں سے 16ویں صدی کی عبادت گاہیں ہیں جبکہ ان کے پاس رجسٹرڈ سیل ڈیڈز نہیں ہے۔ آپ اس طرح کے وقف کو صارف کے ذریعہ کیسے رجسٹر کریں گے؟ ان کے پاس کیا دستاویزات ہوں گے؟ سی جے آئی نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کو انتباہ دیا کہ اس طرح کے وقف کو تبدیل کرنے سے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں داخل 73 درخواستوں میں وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا ہے، جس میں مبینہ مذہبی امتیاز اور ایگزیکٹو کی حد سے لے کر وقف تحفظات کو کم کرنے سے متعلق سوالات کو اٹھایا گیا ہے۔ مسلم تنظیموں کا ماننا ہے کہ یہ قانون بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے کےلئے حکومت کوشاں ہے وہیں مودی حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وقف املاک کے انتظام میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ترمیم ضروری ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علمائے ہند، دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) پارٹی، انڈین یونین مسلم لیگ، وائی ایس آر سی پارٹی کے علاوہ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ و رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا، ٹی ایم سی کی رکن اسمبلی مہوا موئترا، سمستھا کیرالہ کے ایم ایل اے، یو ایس پی ایم ایل اے دہلی، مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے اللہ خان، جمعیت علمائے ہند کے رحمٰن، جامع مسجد بنگلور کے امام، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، TVK کے صدر اور تمل اداکار وجے، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس وغیرہ کی جانب سے وقف قانون کے خلاف درخواست دائر کی گئی جبکہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں جیسے راجستھان، گجرات، ہریانہ، مہاراشٹر، آسام، اتراکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی جانب سے ایکٹ کی حمایت میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے بھی ایک کیویٹ داخل کیا ہے۔