’اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت کے پیچھے معقول اور منصفانہ وجہ۔۔۔‘! الہ آباد ہائی کورٹ کا تبصرہ

حیدرآباد (دکن فائلز) الہ آباد ہائیکورٹ نے اسلام میں چار شادیوں کی اجازت سے متعلق ایک معاملہ میں تاریخی تبصرے کئے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ’شریعت نے مسلمان مرد کو چار شادی کرنے کی مشروط اجازت دی ہے اور وہ ایسا کرسکتا ہے‘۔ عدالت نے مزید کہا کہ ’اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت کے پیچھے معقول اور منصفانہ وجہ و تاریخی پس منظر ہے، لیکن کچھ مرد اس پر عمل نہیں کرتے اور اس اجازت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

لائیو لا کی ایک رپورٹ کے مطابق جسٹس ارون کمار سنگھ دیسوال کی سنگل بنچ نے فرقان نامی مسلم شخص کے خلاف چارج شیٹ کو منسوخ کرنے سے متعلق ایک معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک مسلمان مرد شریعت کے مطابق ایک سے زیادہ نکاح کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ مساوی سلوک کرے۔ عدالت نے واضح کیا کہ قرآن مجید نے مخصوص حالات میں چار شادیوں کی اجازت دی ہے لیکن بعض مرد اس اجازت کو ذاتی مفاد کے لیے غلط استعمال کرتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ یہ کیس 2020 کا ہے جب ایک خاتون نے فرقان کے خلاف مبینہ طور پر اسے یہ بتائے بغیر کہ وہ پہلے ہی شادی شدہ ہے، دوسری شادی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے شکایت درج کی تھی۔ اس کے بعد مرادآباد پولیس نے مقدمہ درج کرکے فرقان اور دو دیگر لوگوں سمن جاری کیا تھا۔

تاہم فرقان کے وکیل نے مراد آباد کی عدالت میں دلیل دی کہ خاتون نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے فرقان کے ساتھ تعلقات رکھنے کے بعد شادی کی اور دوسری شادی کو تعزیرات ہند (آئی پی سی) سیکشن 494 کے تحت جرم نہیں مانا جانا چاہیے۔

جسٹس دیسوال نے بھی مانا کہ اس شخص نے کوئی جرم نہیں کیا کیونکہ ایک مسلمان مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قرآن مجید میں تعدد ازدواج کی اجازت دینے کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ عدالت نے فیصلہ کیا کہ ’فرقان کی دوسری شادی درست ہے کیوں کہ اس کی دونوں بیویاں مسلمان ہیں‘۔

جسٹس دیسوال نے یہ بھی واضح کیا کہ شادی اور طلاق سے متعلق تمام معاملات میں فیصلہ شریعت ایکٹ 1937 کے مطابق ہونا چاہیے۔

جسٹس دیسوال نے اپنے فیصلے میں یونیفارم سول کوڈ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ فرخان کا عمل جرم کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اسلامی شریعت مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں