حیدرآباد (دکن فائلز ویب ڈیسک) نیویارک میں ایک غیر متوقع ملاقات نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلامی ممالک کے سربراہان سے غزہ کی صورتحال پر اہم بات چیت کی۔ کیا یہ ملاقات مشرق وسطیٰ کے لیے کوئی نئی راہ ہموار کرے گی؟
ٹرمپ نے مسلم رہنماؤں سے تقریباً 50 منٹ طویل ملاقات کی۔ اس میں سعودی عرب، ترکیہ، پاکستان، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، قطر اور انڈونیشیا کے رہنما شامل تھے۔ ملاقات کا محور غزہ اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال تھی۔ ملاقات کے بعد ٹرمپ اور مسلم رہنما خاموشی سے روانہ ہو گئے۔ تاہم، بعد میں ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسے “انتہائی کامیاب” قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے بارے میں یہ ایک بہت اچھی اور کامیاب ملاقات تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیلی رہنماؤں سے بھی ملیں گے اور غزہ کے لیے کچھ اقدامات کر سکتے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی اس ملاقات کو “بہت مفید” قرار دیا۔
ملاقات کے آغاز پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ “ہم غزہ کی جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور اسے ختم کرکے رہیں گے۔” انہوں نے اسے اپنی اہم ترین ملاقاتوں میں سے ایک قرار دیا، کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو ختم کریں گے جو انہوں نے شروع نہیں کی۔
ویڈیو دیکھنے کےلئے لنک پر کلک کریں:
https://x.com/i/broadcasts/1BdxYZLYWXBKX
مسلم رہنماؤں سے ملاقات سے قبل، ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کے مظالم کو انعام دینے کے مترادف ہوگا۔ یہ بیان عالمی سطح پر بحث کا باعث بنا۔ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے حماس سے 38 یرغمالیوں کی لاشیں بھی واپس مانگیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ حماس نے امن کی پیشکش کو مسترد کیا ہے۔
اس ملاقات کو لیکر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ یہ ملاقات مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟ کیا یہ غزہ میں امن کی جانب پہلا قدم ہے یا محض ایک سیاسی چال؟