غزہ، فلسطین کا اٹوٹ انگ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے محمود عباس کا آن لائین خطاب، مظلوموں کی آواز دبانے کی امریکی سازش ناکام

حیدرآباد (دکن فائلز ویب ڈیسک) امریکی ویزا نہ ملنے کے باوجود فلسطینی صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ میں پرجوش خطاب کیا۔ فلسطین کی آواز دبانے کی امریکی کوشش ناکام ہوگئی۔

صدر محمود عباس نے غزہ پر اسرائیلی حملوں اور ناکہ بندی کو سنگین جنگی جرائم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے، جو تاریخ کے بدترین المیوں میں شمار ہوگا۔

غزہ کے عوام دو سال سے نسل کشی، تباہی اور بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ دو لاکھ بیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت نہتے شہریوں، بچوں اور خواتین کی ہے۔

فلسطینی صدر نے اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کو دہشت گردی قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ آبادکار گھروں اور کھیتوں کو جلاتے، درخت اکھاڑتے اور دیہات پر حملے کرتے ہیں۔

نہتے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کی سرپرستی میں قتل کیا جاتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ محمود عباس نے واضح کیا کہ غزہ فلسطین کا اٹوٹ انگ ہے۔ انہوں نے غزہ کی حکمرانی اور سلامتی کی مکمل ذمہ داری لینے کی پیشکش کی۔

تاہم، انہوں نے حماس کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حماس اور دیگر گروہوں کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔ یہ ایک ریاست، ایک قانون اور ایک فوج کے اصول کے تحت ضروری ہے۔

انہوں نے 7 اکتوبر کے حماس حملے کی مذمت کی، اور کہا کہ یہ فلسطینی عوام کی آزادی کی جدوجہد کی نمائندگی نہیں کرتا۔ “گریٹر اسرائیل” منصوبہ اور عالمی خلاف ورزیاں

صدر عباس نے نیتن یاہو کے “گریٹر اسرائیل منصوبے” کو مسترد کیا۔ انہوں نے قطر پر حملے کو بھی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ منصوبہ نہ صرف فلسطین بلکہ خودمختار عرب ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اسرائیلی حکومت مغربی کنارے کو تقسیم اور بیت المقدس کو الگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے E1 منصوبے کو “دو ریاستی حل کے خاتمے” کے مترادف قرار دیا۔ یہ خطاب فلسطین کے لیے ایک مضبوط آواز تھا۔ اس نے عالمی برادری کو اسرائیلی مظالم اور توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں