حیدرآباد (دکن فائلز) مولانا سجاد نعمانی کے سچائی پر مبنی بیان کو نفرت کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ معروف عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے حالیہ بیان پر گودی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے جو ہندوتوا شدت پسندوں کی نفرت انگیز تقاریر پر خاموش رہتا ہے۔
ہندوتوا شدت پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف مسلسل نفرت انگیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے، لیکن گودی میڈیا، حکومت اور پولیس سب خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ صورتحال ہمارے ملک کے سیکولر ڈھانچے کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔
حد تو تب ہوگئی جب مولانا سجاد نعمانی نے صرف ملک میں تبدیلی کی بات کہی۔ فرقہ پرستوں اور گودی میڈیا کی جانب سے اس پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا۔ انہوں نے کسی خاص مذہب کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا، نہ ہی کوئی نفرت انگیز تقریر کی۔
کانپور میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نعمانی نے کہا کہ “ملک کے زیادہ تر عوام (ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی و دیگر) تبدیلی کے خواہاں ہیں۔” ان کا اشارہ کسی خاص مذہب کی جانب نہیں تھا۔ بلکہ انہوں نے سیکولر ذہن رکھنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی طرف اشارہ کیا۔
اس کے باوجود گودی و فرقہ پرست میڈیا میں اس بیان کو لے کر نفرت انگیز تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ مولانا نعمانی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ جبکہ یہ سراسر غلط الزام ہے۔ انہوں نے اپنی پوری تقریر میں کہیں بھی کوئی نفرت انگیز تبصرہ نہیں کیا۔
مولانا نعمانی نے واضح کیا کہ تبدیلی کی خواہش کے باوجود کوئی واضح ماڈل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ زیادہ دیر تک تماشا نہیں دیکھتے، وہ تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب چنگاری بھڑک اٹھتی ہے اور عوام میدان میں کود پڑتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگ گولیاں کھاتے ہیں، بموں سے اڑائے جاتے ہیں اور جیلوں میں بھی ٹھونسے جاتے ہیں۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ یہ سب برداشت کر لیتے ہیں، مگر “اسٹیٹس کو” برداشت نہیں کرتے اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ مولانا نعمانی نے ملک اور دنیا کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
وزیر کا دھمکی آمیز ردعمل
مولانا نعمانی کی تقریر پر مدھیہ پردیش حکومت کے وزیر وشواس کیلاش سارنگ نے سخت ردعمل دیا۔ انہوں نے کہا، “مولانا جی، بھولیں مت کہ آپ بول پا رہے ہیں۔ اگر ظلم ہو رہا ہوتا تو کیا آپ بول پاتے؟” انہوں نے مزید کہا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔
وزیر سارنگ نے مولانا کے خلاف انتہائی توہین آمیز لفظ کا استعمال کیا۔ انہوں نے مولانا نعمانی کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ “سجاد میاں، اچھے سے رہو، ٹھیک سے رہو تو ٹھیک رہو گے اور خوش رہو گے۔ زیادہ بیان بازی کرو گے تو ٹھیک ہو جاؤ گے۔” یہ دھمکی آمیز لہجہ ہمارے جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ اس موقع پر مولانا سجاد نعمانی نے ’آئی لو محمد‘ مہم پر انتہائی اہم تبصرہ کیا۔ انہوں نے اس طرح کے مظاہروں سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے ملک بھر میں پھیلی ہوئی بے چینی کو فرقہ پرستوں کی چال قرار دیا اور لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔
موجودہ ماحول میں سچائی کو پہچاننا اور میڈیا کے پروپیگنڈے سے بچنا بہت ضروری ہے۔ امن و امان سے ہی ملک کو ترقی یافتہ بنایا جاسکتا ہے۔