حیدرآباد (دکن فائلز) غزہ کی جانب بڑھتا انسانی امداد کا قافلہ، “گلوبل صمود فلوٹیلا”، اسرائیلی بحریہ کے حملے کی زد میں آ گیا۔ 40 سے زائد کشتیوں پر مشتمل یہ قافلہ، جس میں 500 سے زائد انسانی حقوق کے کارکنان، پارلیمنٹیرینز اور صحافی شامل تھے، غزہ کے محصور عوام کے لیے ادویات اور خوراک لے کر روانہ ہوا تھا۔ اسرائیلی بحریہ نے غزہ سے تقریباً 90 میل دور اس قافلے کا گھیراؤ کر لیا۔
اسرائیلی فوج نے کئی کشتیوں کو روک لیا اور سویڈن کی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت متعدد افراد کو حراست میں لے لیا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا کہ جہازوں کو “بحفاظت روک لیا گیا” ہے اور گرفتار کارکنان کو اشدود بندرگاہ منتقل کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں ایک نیول افسر فلوٹیلا کو اشدود جانے کا کہہ رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امداد کی سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد اسے غزہ بھیجا جائے گا۔ تاہم، فلوٹیلا کے منتظمین نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ انسانی ہمدردی کی امداد کو روکنا عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق غیر قانونی ہے۔
فلوٹیلا انتظامیہ نے تصدیق کی کہ اسرائیلی فوجی کشتیوں پر سوار ہوئے اور کیمرے بند کر دیے۔ حیران کن طور پر، الجزیرہ کے صحافی حسن مسعود نے دعویٰ کیا کہ ان کی کشتی “میکینو” غزہ کی سمندری حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ فلوٹیلا کے ترجمان سیف ابو کشیک نے بھی تصدیق کی کہ 13 کشتیاں روکی گئیں، لیکن تقریباً 30 جہاز اب بھی غزہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اٹلی کے وزیر خارجہ نے اسرائیلی یقین دہانی کے باوجود خدشہ ظاہر کیا کہ غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ اٹلی کی سب سے بڑی یونین نے اسرائیلی کارروائی کے خلاف عام ہڑتال کا اعلان کیا، جس میں غزہ میں خوراک اور ادویات کی جان بوجھ کر روک تھام کی مذمت کی گئی۔
گرفتار امریکی کارکن لیلیٰ ہیگزی نے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ انہیں اسرائیلی فوج نے “اغوا” کر لیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کی حمایت بند کی جائے اور تمام کارکنوں کی بحفاظت واپسی یقینی بنائی جائے۔
گلوبل صمود فلوٹیلا کئی ممالک کے کارکنوں کی مشترکہ کاوش ہے، جس کا مقصد غزہ پر عائد سخت ناکہ بندی کو توڑنا ہے۔ اسرائیل نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ وہ فلوٹیلا کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
یہ واقعہ غزہ کی انسانی صورتحال اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ انسانیت کا یہ سمندری سفر ابھی جاری ہے، اور اس کے نتائج عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔
اہم انسانی مشن اور غزہ کی صورتحال کے بارے میں دنیا بھر کے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔