بڑی خبر: حماس نے بڑی حد تک ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو قبول کرلیا، تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر اتفاق، بعض شقوں پر اٹھائے سوال (تفصیلی خبر)

حیدرآباد (دکن فائلز ویب ڈیسک) غزہ سے انتہائی بڑی اور اہم خبر سامنے آرہی ہے۔ حماس نے ٹرمپ کی غزہ میں سیز فائر تجویز پرعمل درآمد کا اعلان کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کےلئے وہ تیار ہے لیکن اسرائیلی فو ج کو غزہ سے مکمل انخلا کرنا ہوگا، حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اپنا جواب ثالثوں کے پاس جمع کرا دیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق حماس نے ایک بیان میں کہا کہ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر اپنی آمادگی کی توثیق کرتے ہیں لیکن فوری طور پر ثالثی ممالک کے ذریعے اس معاہدے پر بات چیت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ حماس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پر اپنی جنگ ختم کرے اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے تو وہ تمام اسرائیلی قیدیوں چاہے وہ زندہ ہوں یا ہلاک ہوچکے کو رہا کرنے کے لئے تیار ہے۔

ایک اور میڈیا رپورٹ کے مطابق حماس نے ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے کچھ پہلوؤں سے اتفاق کیا ہے۔ ان میں یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کی انتظامیہ ایک آزاد فلسطینی ادارے کے حوالے کرنا شامل ہے۔ تاہم، حماس دیگر شرائط پر مذاکرات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حماس نے واضح کیا کہ وہ تمام شرائط پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ایک آزاد فلسطینی ماہرین (ٹیکنوکریٹس) پر مشتمل عبوری ادارے کو منتقل کرنے پر تیار ہے بشرطیکہ یہ ادارہ ’’فلسطینی قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی حمایت ‘‘ کی بنیاد پر تشکیل پائے۔ حماس کا مزید کہنا ہے کہ ٹرمپ منصوبے میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے متعلق دیگر امور کا فیصلہ ایک جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے تحت ہوگا۔

حماس نے مطالبہ کیا کہ اس فریم ورک میں تمام فلسطینی دھڑوں کو شامل کیا جائے گا اور حماس بھی ’’ذمہ دارانہ کردار‘‘ ادا کرے گی، تمام فیصلے متعلقہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے مطابق کیے جائیں گے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کی تجویز میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے متعلق جو دیگر نکات شامل ہیں وہ ایک مشترکہ قومی مؤقف، بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ حماس نے یرغمالیوں کی رہائی اور قیدیوں کے تبادلے کے فارمولے کو سراہا ہے۔ اس نے فوری امداد کی فراہمی اور جنگ بندی کی کوششوں کو بھی تسلیم کیا ہے۔ حماس نے کہا کہ وہ تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے تیار ہے۔ تاہم، حماس نے اپنے غیر مسلح ہونے کی شرط پر کوئی بات نہیں کی۔ یہ وہ مطالبہ ہے جسے اسرائیل اور امریکہ نے بارہا دہرایا ہے، اور حماس پہلے بھی اسے مسترد کر چکی ہے۔ یہ ایک اہم رکاوٹ بن سکتا ہے۔ حماس نے کہا کہ ان معاملات کو ایک جامع فلسطینی قومی ڈھانچے کے تحت حل کیا جائے گا، جس میں حماس اپنی ذمہ دارانہ شرکت اور کردار ادا کرے گی۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کو غزہ جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کے لیے اتوار تک کی ڈیڈ لائن دے تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کا سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ حماس کے پاس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے اتوار کی شام 6 بجے تک کا وقت ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ حماس کے پاس معاہدہ کرنے کا یہ آخری موقع ہے، معاہدے پر دیگر ممالک دستخط کرچکے ہیں،امریکی صدر نے حماس کو دھمکی دی کہ حماس معاہدہ نہیں کرسکی تو اس کو سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے جبکہ معاہدہ کرنے سے حماس کے جنگجوؤں کی جان بچ جائے گی۔

حماس کا یہ مشروط ردعمل غزہ میں امن کی جانب ایک قدم ہو سکتا ہے، لیکن غیر مسلح ہونے کی شرط پر اس کی خاموشی بڑے سوال کھڑے کررہی ہے جبکہ اسرائیل اور امریکہ اس معاملہ پر بضد ہیں تو وہیں حماس بھی جھکنے کو تیار نہیں دکھائی دے رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں