حیدرآباد (دکن فائلز) آج صبح سپریم کورٹ میں ایک حیران کن واقعہ پیش آیا جب ایک شدت پسند شخص نے چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینک دیا۔ یہ واقعہ عدالت کی کارروائی کے دوران پیش آیا اور سب کو چونکا دیا۔
چیف جسٹس بی آر گاوائی نے ابھی دن کی پہلی سماعت شروع ہی کی تھی۔ اسی دوران ایک نام نہاد ہندوتوا وادی شدت پسند شخص نے “بھارت سناتن کی توہین برداشت نہیں کرے گا” کے نعرے لگائے۔ اس کے بعد اس نے چیف جسٹس کی طرف جوتا پھینکا۔
جوتا بینچ تک نہیں پہنچ سکا اور سیکیورٹی اہلکاروں نے فوری کارروائی کی۔ انہوں نے جوتا پھینکنے والے شدت پسند کو حراست میں لے لیا۔ عدالت میں موجود ہر شخص اس غیر متوقع صورتحال سے حیران رہ گیا۔
اس چونکا دینے والے واقعے کے باوجود، چیف جسٹس گاوائی بالکل پرسکون رہے۔ انہوں نے کہا، “میں آخری شخص ہوں جس پر ایسی چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔” اس کے بعد انہوں نے سماعت جاری رکھنے کا حکم دیا۔ عدالت میں موجود ایک وکیل نے بتایا کہ چیف جسٹس نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا۔ ان کا یہ ردعمل ان کی مضبوط شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکنے والے شدت پسند کی شناخت کشور راکیش کے نام سے ہوئی ہے۔ اس کے پاس سپریم کورٹ کا پراکسیمٹی کارڈ تھا جو وکلاء اور کلرکوں کو جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے ارادے ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ سیکیورٹی ایجنسیاں اس شخص سے پوچھ گچھ کر رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے رجسٹری کو ہدایت کی ہے کہ اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
یہ واقعہ چیف جسٹس کے بھگوان وشنو کے بارے میں ایک تبصرے کے بعد پیش آیا ہے۔ انہوں نے ایک پی آئی ایل پر کہا تھا، “جا کر دیوتا سے خود کچھ کرنے کو کہو۔” اس تبصرے پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے بعد میں وضاحت کی کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے تبصروں کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے آج شام چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گاوائی سے بات کی اور سپریم کورٹ کے احاطے میں ان پر ہونے والے حملے کی مذمت کی۔ پی ایم مودی نے کہا کہ یہ حملہ انتہائی قابل مذمت ہے اور اس نے “ہر ہندوستانی کو غصہ دلایا”۔
سینئر وکیل اندرا جیسنگ نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اسے سپریم کورٹ پر ذات پات کا حملہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، ایسے حملوں کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ سولیسٹر جنرل تشار مہتا اور سینئر وکیل کپل سبل نے سوشل میڈیا کے ردعمل پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر چیزیں اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں۔
اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوتوا وادی فرقہ پرست شدت پسند جو دن رات حب الوطنی کا دم بھرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکاتے ہیں دراصل نہ قانون کا احترام کرتے ہیں، نہ عدالتوں کا اور نہ ہی ملک کا، یہ صرف دھکاوا کرتے ہیں۔