’وہ نکل پڑے اور تم سوچتے ہی رہے۔۔‘: غزہ کے مظلوم بچوں اور خواتین نے کیرالہ کی ریشمی کا شکریہ ادا کیا۔ دل چھو لینے والی ایک سچی کہانی (ویڈیو دیکھیں)

حیدرآباد (دکن فائلز) کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک چھوٹی سی نیکی ہزاروں میل دور کسی کی زندگی کیسے بدل سکتی ہے؟ آج ہم ایک ایسی ہی متاثر کن کہانی سنانے جا رہے ہیں جو انسانیت اور ہمدردی کی ایک روشن مثال ہے۔ یہ کہانی کیرالہ کی ایک خاتون اور غزہ کے بے گھر خاندانوں کے درمیان ایک انوکھے رشتے کی ہے۔

کوچی میں مقیم سری ریشمی اُدئے کمار نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس نے سب کے دل جیت لیے ہیں۔ انہوں نے جنوبی غزہ میں بے گھر ہونے والے 250 فلسطینی خاندانوں کے لیے پانی کا انتظام کیا۔ یہ اقدام جنگ زدہ علاقے میں زندگی کی ایک نئی امید بن کر ابھرا ہے۔

ریشمی نے اپنے چند قریبی دوستوں اور واقف کاروں کی مدد سے 3 ہزار لیٹر پانی کے ٹرک کا انتظام کیا۔ یہ پانی ان خاندانوں تک پہنچایا گیا جو جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو کر جنوبی غزہ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ کوشش واقعی قابل ستائش ہے۔

انسٹاگرام پر شیئر کیے گئے ویڈیوز میں فلسطینی بچے اور خواتین ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے نظر آئے۔ ان پلے کارڈز پر “کیرالہ، ہندوستان کی ریشمی اور ان کے دوستوں کا شکریہ” لکھا ہوا تھا۔ یہ دل چھو لینے والے مناظر تیزی سے وائرل ہو گئے۔

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد کیرالہ کی یہ نوجوان خاتون عالمی سطح پر سرخیوں میں آ گئیں۔ ان کی انسانیت دوستی کی مثال نے دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کیا۔ یہ ایک چھوٹی سی کوشش کا بڑا اثر تھا۔

ریشمی نے بتایا کہ جہاں یہ خاندان فی الحال مقیم ہیں، وہاں پانی کے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن جنگ کی وجہ سے وہ آلودہ ہو چکے ہیں۔ بچے یرقان، دست اور جلدی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے تھے۔ ان خاندانوں کو روزانہ تقریباً 6 ہزار لیٹر صاف پانی کی ضرورت ہے۔ آلودہ پانی کی وجہ سے ان کی صحت کو شدید خطرات لاحق تھے۔ ریشمی کی بروقت مدد نے انہیں ایک بڑی مصیبت سے بچا لیا۔

ویڈیو دیکھنے کےلئے لنک پر کلک کریں:
https://www.instagram.com/reel/DPVtHaNj5qQ/

ریشمی نے اپنے دوستوں اور جاننے والوں کی مدد سے پانی کے ٹرک کا انتظام کیا۔ انہوں نے بیرون ملک اپنے دوستوں سے بھی عطیات جمع کیے۔ مالی مدد حاصل کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ اصل مشکل یہ تھی کہ پانی وہاں تک پہنچائے کون۔ مقامی خاندانوں سے رابطہ کیا گیا اور کسی طرح ایک نجی ٹرک مالک نے پانی کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کی۔ اس کا خرچ ریشمی اور ان کے دوستوں نے برداشت کیا۔

ریشمی اُدئے کمار کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں پھنسے لوگوں کی مدد کرنا ہر انسان کا اخلاقی فرض ہے۔ وہ اسے اسی طرح دیکھتی ہیں اور اس میں کوئی سیاست نہیں سمجھتیں۔ ان کے نزدیک یہ خالصتاً انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے۔ انہوں نے غزہ کے لوگوں کی مدد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ “غزہ کے لوگ انسانی بحران سے گزر رہے ہیں۔ ایسا کسی کے بھی ساتھ، کہیں بھی ہو سکتا ہے۔” ان کے پاس نہ کھانا ہے، نہ پانی، اور ہر چیز مہنگی اور ناقابل رسائی ہو چکی ہے۔

ریشمی گزشتہ 8-9 ماہ سے جنگ زدہ غزہ کے کئی خاندانوں سے رابطے میں ہیں۔ ان خاندانوں کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ جہاں پناہ لیے ہوئے ہیں، وہاں کب تک رہ پائیں گے۔ اب ان کے پاس منتقل ہونے کے لیے کوئی اور جگہ بھی نہیں بچی ہے۔

ایسے میں ریشمی کی یہ کوشش ان کے لیے ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ انسانیت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور ایک فرد کی نیکی ہزاروں زندگیوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں