حیدرآباد (دکن فائلز) اتر پردیش کے جونپور میں ایک مسلم خاتون نے الزام لگایا کہ ضلع ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے مذہبی بنیادوں پر ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واقعہ پورے ملک میں بحث کا موضوع بن گیا۔
شمع پروین نامی خاتون کو 30 ستمبر کی رات زچگی کے لیے ہسپتال لایا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈیوٹی پر موجود خاتون ڈاکٹر نے کہا، “میں کسی مسلم خاتون کا علاج نہیں کروں گی،” اور نرس کو بھی آپریشن تھیٹر میں نہ لے جانے کی ہدایت کی۔ شمع پروین نے ایک ویڈیو میں یہ الزامات لگائے ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر نے ان کے اہل خانہ کو کسی اور ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔ یہ ویڈیو یکم اکتوبر کو منظر عام پر آئی۔
چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مہندر گپتا نے ان الزامات کو حیران کن قرار دیا ہے۔ انہوں نے متعلقہ ڈاکٹر سے وضاحت طلب کی، جس نے مذہبی بنیادوں پر کسی بھی قسم کے تبصرے سے انکار کیا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات کی ہے اور اعلیٰ حکام کو مطلع کر دیا ہے۔
اس دوران، پولیس نے دو مقامی صحافیوں، میانک سریواستو اور محمد عثمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے زبردستی لیبر روم میں داخل ہو کر ویڈیو بنائی اور ہسپتال کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ یہ شکایت سی ایم ایس نے کوتوالی پولیس اسٹیشن میں درج کرائی ہے۔
اس واقعے نے شدید سیاسی ردعمل کو جنم دیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کی ایم ایل اے راگنی سونکار نے اسے “شرمناک” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریاست میں پھیلی فرقہ وارانہ کشیدگی کا نتیجہ ہے۔ راگنی سونکار نے مزید کہا کہ درد زہ میں مبتلا کوئی بھی خاتون جھوٹ نہیں بولے گی۔ انہوں نے ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کے بجائے صحافیوں پر مقدمہ درج کرنے کو حکومت کی سچائی قبول نہ کرنے کی نشانی قرار دیا۔ وہ اس معاملے کو اسمبلی میں اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
کانگریس کے رہنما وِکیش اپادھیائے وکی نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈاکٹر کا مذہبی بنیادوں پر علاج سے انکار کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ ان کے مطابق، ایسے حالات میں متاثرہ کی کوئی ذات یا مذہب نہیں ہوتا، اور سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
دوسری جانب، بی جے پی کے ترجمان اوینیش تیاگی نے اپوزیشن کے دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ تیاگی نے زور دیا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت “سب کا ساتھ سب کا وکاس” کے اصول پر عمل پیرا ہے اور عوامی فلاحی اسکیموں میں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا۔
یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر سوال اٹھاتا ہے۔ کیا ایک ڈاکٹر کا فرض مذہب سے بالاتر نہیں؟ اس معاملے کی گہرائی سے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور صحافیوں کے خلاف درج مقدمات کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔