حیدرآباد (دکن فائلز) جیسے جیسے بہار میں انتخابات قریب آرہے ہیں ویسے ویسے بی جے پی لیڈروں کے متنازعہ بیانات کا سلسلہ بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ پہلے مسلمانوں کو درانداز کہا جارہا تھا، لیکن اب گری راج سنگھ نے تو حد ہی کردی۔ انہوں نے مسلمانوں کی جانب سے بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کو ’نمک حرامی‘ قرار دے دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ بہار انتخابات میں جیت کےلئے بی جے پی کی جانب سے زبان کی تمام حدیں پار کی جائیں گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر گراراج سنگھ ایک بار پھر اقلیتوں کے خلاف اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ سنگھ نے ایسے ریمارکس دیے ہوں۔ ماضی میں بھی وہ کئی بار اقلیتوں کے خلاف انتہائی متنازعہ زبان استعمال کر چکے ہیں۔
ارول میں ایک انتخابی ریلی کے دوران، گراراج سنگھ نے اقلیتی برادری کے بارے میں متنازع تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو “نمک حراموں” کے ووٹ نہیں چاہئیں۔ یہ بیان ایک مسلم عالم سے ان کی مبینہ گفتگو کے حوالے سے دیا گیا۔ اس ریلی میں گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل بھی موجود تھے۔
سنگھ نے بتایا کہ انہوں نے ایک عالم سے پوچھا کہ کیا انہیں آیوشمان کارڈ ملا ہے، جس کا جواب ہاں میں تھا۔ پھر پوچھا کہ کیا ہندو مسلم ہوا، جس پر عالم نے نفی میں جواب دیا۔ جب سنگھ نے ووٹ کے بارے میں پوچھا تو عالم نے پہلے ہاں کہا، لیکن خدا کا واسطہ دینے پر تسلیم کیا کہ ووٹ نہیں دیا۔ سنگھ نے اس پر انہیں “نمک حرام” قرار دیا۔
جے ڈی یو نے گراراج سنگھ کے بیان کو وزیر اعظم مودی کے “سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کے نعرے کے خلاف قرار دیا۔ وہیں آر جے ڈی نے اس بیان کو بی جے پی کی “پولرائزیشن کی سیاست” کا حصہ قرار دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سنگھ کو مرکزی کابینہ سے برطرف کیا جائے۔
وہیں رکن پارلیمنٹ پپو یادو نے گری راج کے بیان پر زبردست طنز کرتے ہوئے بی جے پی پر حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ووٹ نہ دینا نمک حرامی ہے تو پھر یہ بتایا جائے کہ جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کی مخبری کرنے والوں کو کس لقب سے نوازا جانا چاہئے؟ پپو یادو نے گری راج کے بیان پر سخت تنقید کی۔
گراراج سنگھ کے بیانات سیاست میں زبان کے معیار پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ایسے بیانات انتخابی فائدہ کے لیے دیے جاتے ہیں لیکن سیکولر ملک میں اس طرح کے بیانات پر سخت کاروائی کی جانی چاہئے۔