حیدرآباد (پریس نوٹ) جمعیت علماء گریٹر حیدرآباد کے زیر اہتمام بمقام جامع مسجد دار الشفاء ”جلسہ تذکرہ محاسن و اخلاق پاسبان ملت الحاج مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ“ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم امیر شریعت تلنگانہ و آندھرا کی نگرانی اور استاد الاساتذہ حضرت مولانا محمد مصدق القاسمی صاحب دامت برکاتہم صدر جمعیت علماء گریٹر حیدرآباد کی صدارت میں منعقد ہوا۔
حضرت مولانا محمد ندیم صدیقی صاحب مدظلہ صدر جمعیت علماء مہاراشٹر، اور محترم عالی جناب حافظ پیر خلیق احمد صابر صاحب زید مجدہم و جمیع فرزندان حافظ پیر شبیر احمد صاحب رحمہ اللہ مہمان خصوصی رہے۔ حضرت مولانا سید نذیر احمد یونس صاحب قاسمی مدظلہ نے نظامت کے فرائض انجام دئیے،
حضرت مولانا قاری سید عبدالباری صاحب مدظلہ نے رقت آمیز تلاوت قرآن کریم سے اجلاس کا آغاز فرمایا، اور حضرت مولانا حافظ پیر عبدالوہاب عمیر صاحب قاسمی زید مجدہم نے ہدیہ نعت پیش فرمایا۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمارے جڑنے کے دو مقاصد ہیں (1) اپنے بزرگوں کے محاسن کا تذکرہ کرنا کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اذکروا محاسن موتاکم“ (الحدیث) (2) دوسرا مقصد یہ ہے کہ خوبیوں کے ذکر سے اچھے عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، تو بزرگوں کے محاسن کا تذکرہ جب ہمارے سامنے ہوگا تو ہمارے اندر بھی عمل کا جذبہ پیدا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر بہت سی خوبیاں رکھی ہیں، بعض خامیاں بھی ہوتی ہیں اور ہمارا کام یہ ہے کہ اب ان پر غور کریں اور اپنی زندگی کو اس سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔
آپ نے فرمایا کہ میں 1978 سے حیدرآباد میں ہوں اس وقت سے لیکر حافظ صاحب کے صدر بننے تک اس شہر میں ہی نہیں اس ریاست میں بھی جمعیت کا کوئی تعارف نہیں تھا، بحیثیت تنظیم کے اس شناخت بھی نہیں تھی، حافظ صاحب کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ آپ نے بڑی حکمت کے ساتھ، بڑی خاموشی کے ساتھ، کسی شور ہنگامہ کے بغیر جمعیت کو مستحکم فرمایا، یہی وجہ ہے کہ ہر حلقے کے لوگ حافظ صاحب سے بہت زیادہ مانوس ہیں۔ خطاب کے آخر میں مولانا نے حافظ صاحب رحمہ اللہ کے اہل خانہ کو تعزیت مسنونہ پیش کی۔
قائد جمعیت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب دامت برکاتہم کا خطاب ہوا، آپ نے اپنے بیان میں فرمایا کہ آج کے اجلاس میں میں دیکھ رہا ہوں کہ زیادہ تعداد جمعیت علماء کے دونوں ریاستوں (تلنگانہ و آندھرا)کے ذمہ داران و کارکنان جڑے ہیں اور جوڑے والوں میں حافظ صاحب مرحوم تھے، اور فرمایا کہ جمعیت کا کام اور نام دونوں ریاستوں میں شاذ و نادر تھا اور ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ جمعیت ایک بریف کیس میں چلتی تھی، پچھلے دونوں میں جہاں جانا ہوا، جہاں پہنچے وہاں حافظ صاحب رحمہ اللہ کا نام اور آپ کے تیار کئے ہوئے افراد ملے، کچھ دنوں پہلے آندھرا کے انتخابی اجلاس میں جانا ہوا، صبح فجر کے وقت ایک مقام پر رکے تو وہاں دور دراز کے دو عالم آرہے تھے انتخابی اجلاس میں شرکت کے لیے، جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ بارہ سال پہلے حافظ صاحب مرحوم ہمارے علاقے میں آیے تھے اور ہمیں جمعیت سے جوڑا تھا، حافظ صاحب مرحوم نے گویا دونوں ریاستوں میں جمعیت کی نشأت ثانیہ اور احیاء نو کا کام کیا ہے، اور جمعیت علماء کے جتنے بھی کام ہے ہم اس کو دین سمجھ کر کرتے ہیں اور دین ہی سمجھتے ہیں، حافظ صاحب مرحوم نے گاؤں گاؤں ضلع ضلع میں پہنچ کر جمعیت کی آواز پہنچائی، حافظ صاحب کو بڑا حلم تھا، دو دو دن تک کی مجلس ہوتی مگر حافظ صاحب مرحوم خاموش رہتے، جماعتوں اور تنظیموں میں کام کرنے والوں میں آج کے دور میں حلم اور اختلاف کے آداب کی جتنی ضرورت ہے اتنی ضرورت شاید اس پہلے کبھی رہی ہو، اور میں اس بات کا گواہ ہوں کہ ستائیس اٹھائیس سال سے ہم نے ان کو دیکھا کہ بڑا حلم تھا اور وہ صرف صوبہ کے آدمی نہیں تھے بلکہ مرکز کے آدمی تھے، جمعیت علماء تلنگانہ و آندھرا کے کارکنوں کی اس وقت 80/فیصد سے زیادہ تعداد وہ ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ حافظ صاحب مرحوم کی تیار کردہ ہے جو آپ کے لئے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ ہے، حافظ صاحب مرحوم خاموش کام کرنے والے آدمی تھے، اور جہد مسلسل بھی آپ کا خاص امتیاز تھا، مزید بہت سے خدمات عالی قدر بیان فرمائے۔
حسام الدین ثانی حضرت مولانا جعفر پاشاہ صاحب دامت برکاتہم کا خطاب ہوا آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ تیس سال سے میرا تعلق حافظ صاحب مرحوم کے رہا ہے اور جب بھی ملاقات ہوتی ہمیشہ انتہائی محبت سے ملاقات کرتے، انتہائی خاموش مزاج اور لوگوں کے ساتھ محبت اور اخلاص سے کام کرتے جس کی بنیاد پر آج وہ ہر کے دل میں گھر بنائے ہیں، اسی لیے حافظ صاحب مرحوم کی محنت کو اتحاد کے ساتھ آگے بڑھانا ہماری ذمہ داری ہے۔
حضرت مولانا محمد بانعیم صاحب دامت برکاتہم کا خطاب ہوا آپ نے فرمایا کہ حافظ صاحب مرحوم میں بہت انکساری تھی، آپ کو علماء کرام نے آگے بڑھایا مگر آپ نے بڑی عاجزی کے ساتھ معذرت کی مگر اصرار پر عہدہ قبول فرمایا اور اللہ نے آپ سے بہت کام لیا اللہ تعالیٰ آپ کے تمام خدمات کو قبول فرمائے۔
حضرت مولانا محمد عبدالقوی صاحب دامت برکاتہم کا خطاب ہوا آپ نے اپنے بیان میں فرمایا کہ امت شہداء اللہ فی الارض ہم بھی حضرت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں، حافظ صاحب مرحوم کی ابتدائی زندگی اہل اللہ اور علماء کرام کی صحبتوں میں گزری، اور آپ کامیاب تاجر بھی تھے، اور ایسا نہیں تھا آپ جمعیت میں کسی غرض سے آئے ہوں وہ خود مکتفی تھے، اور علماء کرام کی بڑی قدر کرتے تھے۔
حضرت مولانا حامد محمد خان صاحب مدظلہ صدر جماعت اسلامی کا خطاب ہوا، آپ نے فرمایا کہ حافظ صاحب مرحوم ایک شخص نہیں بلکہ ایک قافلہ تھے، وہ ہر جگہ ایمان اور اسلام کے پیغام کو عام کرتے، بالخصوص ارتداد کی روک تھام کے لیے آپ نے بہت کوششیں کی، اور ان تمام کے ساتھ آپ ایک کامیاب تاجر بھی تھے۔
حضرت مولانا عمر صاحب قاسمی بنگلوری دامت برکاتہم کا خطاب ہوا، آپ نے اپنے بیان میں فرمایا حافظ صاحب مرحوم اپنی زندگی میں پہاڑ کی طرح استقامت سے دین کے کاموں میں جمے ہوئے تھے، آپ کی یہ زندگی ہم سب کے لیے نمونہ ہے، آپ نے اپنی پوری زندگی جمعیت کے لئے وقف کردی، ہمیشہ جمعیت کو مقدم رکھا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے اندر صبر اور تحمل تھا۔
حضرت مولانا فصیح الدین ندوی صاحب مدظلہ کا خطاب ہوا آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ آپ کے جو نمایاں صفات تھے اس میں خندہ پیشانی سے ملنا بہت نمایاں تھا، کبھی اپنے چھوٹوں کو چھوٹا ہونے کا احساس ہونے نہیں دیتے تھے، اور آپ کو تلنگانہ و آندھرا کے علماء کا اعتماد حاصل تھا۔
برکت العصر حضرت مولانا اکبر صاحب مفتاحی دامت برکاتہم کا خطاب ہوا، آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ حافظ صاحب مرحوم نے جس محنت کے ساتھ اور جس لگاؤ کے ساتھ کام کیا ہے وہ ہمارے لیے نمونہ ہے، اب ہم اس کے پابند رہیں گے۔ اللہ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے، آمین
حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم کا خطاب ہوا آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اس دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے جانا ہے اور جانے والوں کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جن کے گزرنے کے بعد لوگ ان کو بھول جاتے ہیں، دوسرے وہ جن کے گزرنے کے بعد لوگ انہیں یاد رکھتے ہیں، اس واسطے گزرنا تو سب کو ہے لیکن بعد والے لوگوں کے لیے جن کی زندگی نمونہ ہو جن کے کارنامے زندہ ہوں اور جنہیں یاد رکھا جائے وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی اس مختصر سے زندگی میں اخلاص کے ساتھ اللہ کو راضی کرنے کے لیے اپنے آپ کو دین کی خدمات سے وابستہ رکھا ہو اور بندہ گان خدا کی خدمت میں مشغول رہے ہوں، ہمارے حضرت حافظ پیر شبیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ انہی افراد میں سے تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی کو دینِ متین کی خدمت کے لیے وقف کیا تھا، اور جو خدمت خلق میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے، بات کم کام زیادہ کرتے تھے، متواضع تھے، منکسر المزاج تھے، ہر ایک کے ساتھ اکرام و احترام کا برتاؤ ان کی خصوصیات میں سے تھا، بالخصوص اہل اللہ اور بزرگان دین سے بہت ہی غیر معمولی عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔
حضرت مولانا محمد حسین صاحب مظاہری مدظلہ کا خطاب ہوا، آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ حافظ صاحب مرحوم کی نورانی بصیرت تھی کہ وہ کام کرنے والوں کو پہچان لیا کرتے تھے، حضرت ہی کی تشکیل پر میں جمعیت سے منسلک ہوا، اس جماعت کے ساتھ بزرگوں کی دعائیں ہیں جو اس جماعت سے جڑ گیا وہ سرخرو ہوجاتا ہے، اور جو اس سے کٹ گیے آج ان کا نام نشان بھی باقی نہیں رہا۔
حضرت مولانا مفتی الیاس صاحب دامت برکاتہم کا خطاب ہوا آپ نے اپنے بیان میں فرمایا کہ حافظ صاحب مرحوم کی مفارقت سے صرف آپ کے افراد خان ہی یتیم نہیں ہوئے بلکہ ہم سب جمعیت علماء کے خدام جو برسہا برس سے حضرت مرحوم کی انگلی پکڑ کر جمیعت کا کام کرنا سیکھا اور جمعیت کے مشن کو سمجھا ہم سب بھی یتیم ہوئے،حضرت حافظ صاحب مرحوم کی خدمات گزشتہ تین دہائیوں سے زائد کو محیط ہے، ریاست تلنگانہ و آندھرا میں سب سے پہلے اصلاح معاشرہ کی مہم جس قدر تیزی کے ساتھ حضرت حافظ صاحب مرحوم نے چلائی اس کی مثال نہیں ملتی، آپ نے ہر سال عشرہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عشرہ اصلاح معاشرہ کی داغ بیل ڈالی، حافظ صاحب کے اندر قائدہ صلاحیت تھی اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں قدر دانی کرتے ہوئے لے کر چلنے کا جذبہ تھا، خورد نوازی، ذرہ نوازی، چھوٹوں کو آگے بڑھانا یہ خاص صفت تھی، اور حافظ صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنے فرزند ارجمند حافظ پیر خلیق احمد صابر (صاحب) کو بھی جمعیت کے رنگ میں ڈھال دیا۔
حضرت مولانا سید احسان الدین صاحب قاسمی دامت برکاتہم کا خطاب ہوا آپ نے اپنے بیان میں فرمایا کہ ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب جمیعت ایک بریف کیس میں ہوا کرتی تھی اور اس کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا اخباروں میں بھی اس کا نام نہیں ہوتا تھا حافظ صاحب نے گلی گلی نگر نگر ڈگر ڈگر قریہ قریہ پہنچ کر جمیعت کا جھنڈا لہرایا، مسلمانوں کے لیے چار فیصد ریزرویشن حافظ صاحب نے ہی منظور کروایا۔
حضرت مولانا ندیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم کا خطاب ہوا، آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ چار فیصد ریزرویشن تحریک جب چلانے کا فیصلہ ہوا تو سب نے یہ کہا کہ یہ تحریک نہیں چل سکتی اس وقت حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہ اکیلے مرد مجاہد تھے جنہوں نے کھڑے ہوکر حضرت فدائے ملت رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت یہ تحریک ہم چلائیں گے، اور جب تک چار فیصد ریزرویشن منظور نہیں ہوا حضرت نے اپنے صحت اپنے حال کا خیال کیے بغیر دیوانہ وار اس تحریک کو چلایا اور چار فیصد ریزرویشن منظور کروایا، صرف یہی نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ کی تحریک ہو، سیرت النبی کا مسئلہ ہو ایسے ہزاروں واقعات ہیں جس میں حافظ پیر شبیر صاحب نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، حافظ پیر شبیر صاحب ایک شخص نہیں تھے ایک انجمن تھے، کبھی ان کو اپنی طبیعت کی پرواہ نہیں تھی ان کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف جمعیت تھا۔
محترم حافظ پیر خلیق احمد صابر صاحب مدظلہ کا خطاب ہوا آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں ایک شفیق باپ ہمدرد والد محترم سے محروم ہوا، جن کے والدین باحیات ہیں میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے والدین کی قدر کریں، کم از کم پانچ منٹ قریب بیٹھ کر چہرہ دیکھ لیں پھر وہ نظر نہیں آئیں گے، حضرت والد محترم کو تین سال پہلے جو اٹیک ہوا تھا اس کے باوجود بھی حضرت والد محترم تقریبا اضلاع کے اسفار کرتے وہاں کا جائزہ لیتے، لیکن تین چار ماہ قبل سے طبیعت زیادہ ناساز ہونے کی بنا پہ اسفار کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا لیکن جب بھی کسی ضلع کا سفر درکار ہوتا اور میں حضرت والد محترم سے جانے کی اجازت طلب کرتا تو آپ فورا اجازت بلکہ حکم دیتے کہ آپ کو وہاں جانا چاہیے اور سفر سے واپسی پر بٹھا کر وہاں کی پوری تفصیلات، شریک ہونے والے علماء کرام کے بارے میں اور حالات کے بارے میں ساری تفصیلات سنتے، تین سال کے اس سفر میں میں جس بھی ضلع میں گیا اور انتخاب بھی میٹنگ وغیرہ میں شرکت کی تو مجھے یقین ہوا کہ کسی بھی ضلع کے عہدے دار میں عہدہ کی طلب نہیں ہے ہر ایک نے یہی کہا کہ کئی سال ہو گئے اب کسی اور کو آگے بڑھانا چاہیے،آپ رحمہ اللہ اپنے فرزندان سے کہتے کہ ہماری زندگی کا مقصد علماء کرام کی جوتی سیدھی کرنا ہے، آدمی کو مت دیکھو بلکہ ان کے اندر کے علم کو دیکھو، جو علم ان کے اندر اس کی قدر کرو، آخر میں آپ نے کہا کہ والد محترم کے حالات زندگی کی تفصیل بڑی لمبی ہے جو بھی ہے والد محترم ہی کے کارنامے ہیں میرا کچھ نہیں ہے، میں نے صرف والد محترم کے کام میں معاونت کی ہے۔
حضرت مولانا محمد مصدق القاسمی صاحب دامت برکاتہم کا خطاب ہوا، آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ یقینا اس دنیا فانی سے ہر ایک کو جانا ہے، حضرت محترم حافظ شبیر احمد صاحب رحمت اللہ علیہ اس دنیا سے گئے لیکن آپ نے اپنے اکابر کی زبانوں سے ان کی جو تعریف سنی ہے یقینا کسی بندے کے لیے اللہ والوں کی شہادت اس کی نجات کے لیے کافی ہے، گزرے ہوئے اکابر کے خدمت اس لیے بیان کیے جاتے ہیں کہ بعد والے ان کی راہ پر چل سکیں اس کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے، حافظ صاحب کی سادگی، حلم، بردباری، خدا سے تعلق، چھوٹوں سے ان کی جو خورد نوازی تھی وہ بار بار یاد آتی ہے، کئی ایسے واقعات ہیں جو حافظ صاحب کی عالی صفات کو بتلاتے ہیں۔
ان علماء کرام کے علاوہ حضرت مولانا مفتی یونس صاحب قاسمی مدظلہ، مفتی سعید صاحب قاسمی مدظلہ، حضرت مولانا عبداللہ اظہر صاحب مدظلہ کے خطابات بھی ہوئے اور سبھوں نے حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب رحمہ اللہ کے بڑے کارناموں اور عالی صفات کو بیان کیا۔
آخر میں استاد الاساتذہ حضرت مولانا محمد مصدق القاسمی صاحب دامت برکاتہم کی دعا کے ساتھ اجلاس کا اختتام ہوا۔ اس اجلاس میں ریاست اور بیرون ریاست کے معزز علمائے کرام اور ذمہ داران جمیعت نے سیکڑوں کی تعداد میں شرکت فرمائی۔



