حیدرآباد (دکن فائلز ویب ڈیسک) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے ایک دل دہلا دینے والی رپورٹ جاری کی ہے جس میں قابض اسرائیل کی جارحیت کے باعث غزہ میں بچوں کی حالت کو “انسانیت کے لیے ایک المیہ” قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ملین سے زائد فلسطینی بچے دنیا کے “سب سے خطرناک مقام” میں روزانہ خوفناک اذیتوں سے گزر رہے ہیں۔
یونیسف کے مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ کے علاقائی ڈائریکٹر ایدوار بیگ بیدیر نے بتایا کہ ادارہ غزہ میں بڑھتے ہوئے قحط کے خطرے کے پیشِ نظر اپنی امدادی کارروائیاں وسیع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “تمام سرحدی گذرگاہوں کو فوری اور مکمل طور پر کھولا جائے تاکہ امداد بلا رکاوٹ غزہ پہنچ سکے”، کیونکہ بچوں کی حالت کے بارے میں جو حقائق سامنے آ رہے ہیں وہ “انتہائی ہولناک اور تباہ کن” ہیں۔
یونیسف نے اپنی تازہ ترین بیانات میں کہا کہ حالیہ فائر بندی نے غزہ کے بچوں کو زندگی کی معمولی سی امید ضرور دی ہے لیکن موجودہ انسانی امداد “حقیقی ضرورتوں سے بہت کم” ہے۔ قابض اسرائیل کے جنگی حملوں سے پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور لاکھوں بچوں کے لیے خوراک، پانی اور صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک 64 ہزار سے زائد بچے شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ 58 ہزار سے زائد بچے اپنے والدین میں سے کم از کم ایک سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایک ملین فلسطینی بچے ایسے حالات میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں جنہیں یونیسف نے “غیر انسانی” قرار دیا ہے۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ “یہ اذیت الفاظ اور اعداد و شمار سے بیان نہیں کی جا سکتی،” اور خبردار کیا کہ جنگ کے اثرات آئندہ کئی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ واضح کیا کہ “غزہ کے بچوں کی بقا اس بات پر منحصر ہے کہ تمام گذرگاہیں مکمل طور پر اور مستقل بنیادوں پر کھولی جائیں۔” ان کے بقول امداد میں مزید تاخیر “مزید ننھی جانوں کے ضیاع” کا سبب بنے گی۔
یونیسف نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر حرکت میں آئے تاکہ فلسطینی بچوں کے پورے ایک نسل کو بھوک، تباہی، نفسیاتی اور جسمانی اذیت سے بچایا جا سکے۔ ادارے نے کہا کہ “غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموشی اختیار کرنا دراصل نسل کشی میں شراکت داری کے مترادف ہے۔”



