اسلامی دعائیہ کلمات کو لیکر بجرنگ دل کا ہنگامہ، کانپور اسکول انتظامیہ نے فرقہ پرست طاقتوں کو منہ توڑ جواب دیا

اترپردیش کے کانپور میں بجرنگ دل اور بی جے پی کارکنوں نے اب ’کلمہ‘ کو لیکر ایک تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی تاہم اسکول انتظامیہ نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی سازش کو ناکام بنادیا۔

اطلاعات کے مطابق کانپور کے ایک نجی اسکول میں صبح کی اسمبلی کے دوران ہندو طلبا کو کلمہ پڑھانے کا الزام لگاتے ہوئے بجرنگ دل اور بی جے پی کے کارکنوں کے علاوہ کچھ سرپستوں نے انتظامیہ سے اس کی شکایت کی اور اسکول کے احاطہ میں گنگاجل چھڑکا۔ انہوں نے اسکول انتظامیہ سے غیرمسلم طلبا کو کلمہ پڑھانے پر اعتراض جتایا تاہم اسکول انتظامیہ نے تنازعہ کو مزید نہ بڑھاتے ہوئے سمجھ داری کا مظاہرہ کیا۔

اسکول انتظامیہ نے فوری طور پر اعلان کیا کہ اب صبح کی اسمبلی میں کسی بھی مذہب کے دعائیہ کلمات کو ادا نہیں کیا جائے گا بلکہ صرف قومی گیت ہی گایا جائےگا۔ اسکول کی ایک خاتون ذمہ دار نے گودی میڈیا کے بے تکے اور بھڑکاؤں سوالات کا انتہائی ذمہ داری و سمجھ داری سے دیا، جس کے بعد فرقہ پرست میڈیا لاجواب ہوگیا۔

اسکول کی جانب سے ایک خاتون ٹیچر نے کچھ غیرذمہ دار رپورٹرز کے سوالوں کا بہتر انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسکول کو 2003 میں قائم کیا گیا، تب سے صبح کی اسمبلی میں ملک کے چار بڑے مذہب کے دعائیہ کلمات کو پڑھایا جاتا ہے جس میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی مذہب شامل ہے، اس میں بری بات کیا ہے، ہم تمام مذاہب کا برابر احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسمبلی میں صرف ایک مذہب کے کلمات پڑھائے جاتے تو یہ مناسب نہ ہوتا۔

اسکول کی ذمہ دار نے مزید کہا کہ کچھ طلبا کے والدین کی جانب سے اسلامی کلمات پر اعتراض جتایا گیا جس کے بعد اسکول انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب سے صبح کی اسمبلی میں کسی بھی مذہب کے دعائیہ کلمات کو نہیں پڑھایا جائے گا جبکہ صرف قومی گیت ہی گایا جائے گا۔ پولیس اس معاملہ کو لیکر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ پولیس کے مطابق اگر اس سلسلہ میں کوئی شکایت کی جاتی ہے تو قانون کے مطابق مناسب کاروائی کی جائے گی۔

اس موقع پر بجرنگ دل کے کارکنوں نے اسکول میں طلبا کی جانب سے نماز پڑھنے سے متعلق تنازعہ پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی جیسا کے گذشتہ کچھ دنوں سے فرقہ پرست طاقتیں نماز کو لیکر غلط پروپگنڈہ پھیلانے کی فراغ میں ہیں اور ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ نماز عبادت نہیں بلکہ یہ کوئی غیرقانونی یا غیرجمہوری عمل ہے۔ اس طرح کی نفرت پھیلانے والوں کے خلاف مناسب انداز میں قانونی کاروائی کرکے انہیں منہ توڑ جواب دیا جانا چاہئے۔ مسلم رہنما، علما اکرام، اسکالرز اور صحافی حضرات کو آگے آکر لوگوں میں پھیلائی جارہی بدگمانی کا ازالہ کرنا چاہئے تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہ سکے۔ وہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پانچ وقت کی نماز خود بھی پابندی کے ساتھ ادا کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرے۔ نماز ہر عاقل اور بالغ مسلمان پر فرض ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں