حیدرآباد (دکن فائلز) سپریم کورٹ نے مسلمانوں میں طلاق کے ایک اور رواج ’طلاق حسن‘ پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بنچ نے تین مہینے تک مہینہ میں ایک بار ’طلاق‘ کہنے کے اس عمل کی صداقت پر سوال اٹھایا۔ جسٹس سوریہ کانت، اجل بھویان اور این کے سنگھ پر مشتمل بنچ نے سوال کیا کہ “ایک جدید معاشرے میں ایسے طریقوں کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟”
سپریم کورٹ، جس نے آٹھ سال قبل تین طلاق (طلاقِ بدعی) کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ دیا تھا، اب شریعت کے مطابق طلاق کے ایک اور طریقہ پر سوال اٹھائے۔
عدالت نے یہ تبصرہ ایک مسلم خاتون کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران کیا۔ بے نظیر حنا کو ان کے شوہر غلام اختر نے اپنے وکیل کے ذریعہ طلاق کا نوٹس دی تھی۔ بعد میں اختر نے دوسری شادی کر لی۔ تاہم، خاتون نے عدالت کو بتایا کہ اسے اپنے بچے کو اسکول میں داخل کرانے میں دشواری ہو رہی ہے کیونکہ اس کے شوہر نے 11 صفحات پر مشتمل طلاق نوٹس پر دستخط نہیں کیے تھے۔
سپریم کورٹ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بعض شوہر اپنے وکلا کے ذریعہ بیویوں کو طلاق کے نوٹس بھجواتے ہیں، جس کے بعد وہ خود طلاق دینے سے انکار کر کے بیویوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ عمل خواتین کو شدید مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے میں عدالتی مداخلت کے امکانات پر فریقین سے رائے طلب کی ہے۔
بنچ نے اس موقع پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ شوہر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام میں ایک عام رواج ہے، عدالت نے سوال کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ “شوہر کا اپنی بیوی سے طلاق کے بارے میں براہ راست بات کرنا کیسا تکبر ہے؟ یہ عورت کی عزت نفس کا معاملہ ہے۔ جدید معاشرے میں ایسی باتوں کی حوصلہ افزائی کیسے کی جا سکتی ہے؟”
بنچ نے واضح کیا گیا کہ اگر کوئی مذہبی روایات کے مطابق طلاق لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے تمام طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا۔ بنچ نے اس موقع پر درخواست گزار کی اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی تعریف کی اور خواتین کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا جن کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ بنچ نے شوہر کو حکم دیا کہ وہ اگلی سماعت پر عدالت میں حاضر ہو۔
طلاقِ حسن اسلامی شریعت میں ایک ایسا طریقۂ طلاق ہے جس میں شوہر ایک ماہ کے وقفہ سے تین مرتبہ طلاق کا لفظ ادا کرتا ہے۔ یہ قابلِ رجوع اور تدریجی طریقہ سمجھا جاتا ہے، جو فوری تین طلاق (تلاقِ بدعی) سے مختلف ہے۔ یاد رہے کہ 2017 میں سپریم کورٹ نے طلاقِ بدعی (تین طلاق) کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔
اس دوران جسٹس سوریا کانت نے ریمارکس کیا کہ عدالت کے سامنے موجود درخواست دہندگان ایک ڈاکٹر اور ایک صحافی ہیں، جو معاشرے کے باشعور طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ملک میں بے شمار ایسی خواتین بھی ہیں جو ناخواندہ ہیں یا دور دراز علاقوں میں رہتی ہیں اور جن کی آواز عدالت تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں ان کے حقوق کی حفاظت کیسے ہوگی؟ انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ عدالت اس معاملے میں صرف موجودہ مقدمات ہی نہیں بلکہ اس سے جڑے وسیع تر مسائل پر بھی غور کرے۔
عدالت نے مشورہ دیا کہ اگر طلاق کے باقی طریقوں میں کوئی خامیاں پائی جائیں تو انہیں منسوخ کرنے کے بجائے ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے تاکہ خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق اگست 2022 میں سپریم کورٹ نے’طلاق حسن’ کو غیر آئینی قرار دینے والی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”طلاق حسن بادی النظر میں غیر مناسب نہیں ہے۔‘‘عدالت نے مزید کہا کہ اس کے سامنے زیر التوا مقدمہ کو کسی دوسرے ایجنڈے کو ہوا دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔



